نواز شریف کی کوتائی بحران کو جنم دے سکتی ہے

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

اسلامی جمہوریہ پاکستان موجودہ صورتحال کافی سنگین ہیں۔ نواز شریف کی حکومت کا آغا بھی ہونے والا ہے ا بھی نئی منتخب حکومت نہیں آئی ، نگران حکومت عوام کے سامنے جوابدہ نہیں ، دھڑلے سے عوام کو ”مہنگائی ” کے ساتھ ساتھ اب غیر علانیہ بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ سے مار گئی۔ اتنی طویل لوڈ شیڈنگ شاہد تاریخ میں نہیں دیکھی گئی جتنی اب ہو رہی ہے ۔سیانے کہتے ہیں کہ اب عوام کو پتا لگا کہ ”زرداری” دور اس سے اچھا تھا۔

کہیں ایسا تو نہیں کہ اب حکومت چلانے اور گرانے کے لئے” واپڈا ”بیوروکریسی کی اداکاری ،فنکاری اور کاروباری سازشیں کام تمام کریں گی۔ حیرت ہے کہ شارٹ فال ایک دم 7ہزار میگاواٹ سے تجاوز ہو گیا ہے ، ایسا کیوں نہ ہو ، جب ملک بھر کے بجلی گھر وں میں تیل مہیا نہ کیا جائے ، بد انتظامی کا یہ حال ہو کہ بجلی فراہم کرنے والے ادارے” چمک ”کی تلاش میں سر گرداں ہوں تو پھر یہی منظر کشی ہونا عجب بات نہیں۔

حیران کن امر یہ ہے کہ بجلی صارفین سے ہر ماہ نقد بلات کی روشنی میں رقم ہتھیا لی جاتی ہے اس کے باوجود خسارہ کہاں سے آ گیا ظاہر ہے کہ کرپٹ ،بد دیانت اور عوام دشمن ” سائبریں ”نے ملک کو ”ہائی جیک ” کر رکھا ہے جو آنے والی حکومت کے لئے چیلنج سے کم نہیں۔ا ب سنئے نگران اس بارے کیا فرماتے ہیں بجلی و پانی کے نگراں وزیر ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا ہے کہ ملک میں جاری طویل لوڈ شیڈنگ کا فوری حل پیداوار میں اضافے کے لیے ان بجلی گھروں کو ایندھن فراہم کرنا ہے۔

جو اپنی پوری استعداد پر کام نہیں کر رہے۔ بجلی گھروں کو تیل اور گیس فراہم کر دیں تو آج کی پیداوار میں ہی ڈھائی ہزار میگا واٹ کا اضافہ ہو سکتا ہے جس سے لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ قابلِ ذکر حد تک کم ہو کر سات سے آٹھ گھنٹے تک آ سکتا ہے۔ آٹھ سو سے ایک ہزار میگا واٹ کے یونٹ تکنیکی خرابیوں کی وجہ سے بند ہیں اور جنگی بنیادوں پر اگر انہیں بحال کر لیا جائے تو چند ماہ میں یہ اضافی بجلی بھی مل سکتی ہے۔مصدق ملک کا کہنا تھا کہ اگر قوم کو ریلیف دینا ہے۔

Diesal

Diesal

تو اس کا ایک ہی طریقہ 16 سے 18 ہزار ٹن تیل، 150 ملین مکعب فٹ گیس یا اس کے متبادل ڈیزل کی فراہمی ہے ،تاہم نگراں وزیر نے وزارتِ خزانہ کی جانب سے رقم ریلیز نہ کرنے کی شکایت کی اور کہا کہ وزیر اعظم کے دفتر سے ساڑھے 23 ارب روپے کی رقم منظور کروا کر نکلے تھے لیکن وزارت تک یہ رقم پہنچ نہیں پائی۔ ہم آج دس ہزار دو سو میگا واٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں اور اب تک تو مسئلہ وہیں کا وہیں ہے۔ ہم اپنی صلاحیت سے 23 فیصد کم بجلی بنا رہے ہیں۔

اور اس میں سے 17 سے 18 فیصد بجلی ہماری پیداوار ساڑھے بارہ سے 13 ہزار میگا واٹ تک لے جا سکتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس رقم کے اجرا کی منظوری کے دو دن بعد بھی ان کی وزارت کو صرف 5 ارب روپے ملے ہیں جن کے بارے میں پہلے سے طے ہے کہ یہ پی ایس او کو ملیں گے۔ اگر یہ فیصلہ پہلے سے ہونا ہے کہ وزیر اعظم جو بھی کہیں ہم پانچ ارب ہی دیں گے اور وہ بھی لکھ کر دیں گے کہ کہاں جانیں ہیں تو پھر یہ وزارت بھی انہیں ہی چلا لینی چاہیے۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے بیشتر اقدامات میں نگراں حکومت کو ناکامی ہی ہوئی تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہم نے دستیاب وقت میں مسائل کی نشاندہی کر لی ہے۔ مصدق ملک نے بتایا کہ بجلی کی پیداوار کے حوالے سے 76 ارب روپے کی رقم کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ ہر ماہ 13 ارب روپے بجلی بنانے والے سرکاری کارخانوں کو دیے جاتے ہیں اور ان سے 650 میگا واٹ بجلی ملتی ہے۔ اگر اس کی جگہ دس ارب نجی بجلی گھروں کو دیں تو یہ پیداوار 650 کی جگہ 1150 ہو جائے گی۔

صرف دس ارب روپے نقد کا معاملہ ہے جو ہم تیل خرید کر نجی پلانٹس کو دیں تو نہ صرف بجلی زیادہ ملے گی بلکہ اربوں روپے کی قوم کو بچت بھی ہوگی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہم وزارتِ خزانہ کو ڈیڑھ ماہ میں دس ارب دینے کے لیے قائل نہیں کر سکے تاکہ قوم کا 76 ارب روپے بچ سکے۔اس وقت ملک میں بجلی کا شدید بحران ہے، لوگ پریشان اور لاچار ہیں۔ اب یہ ایک سیاسی مسئلہ بن چکا ہے اور اسے ترجیح نہ دینا سیاسی خودکشی ہو گی۔

Electricity

Electricity

یہ حقیقت ہے کہ توانائی کی معیشت کی تنظیمِ نو سب سے ضروری ہے۔ گردشی قرضے ہمارا مسئلہ نہیں،جس دن یہ قرض ختم ہوگا اسی دن سے دوبارہ چڑھنے لگے گا۔ یہ وہ کنواں ہے جس کی کوئی تہہ نہیں۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ پہلے اپنی معیشت کا ڈھانچہ ٹھیک کریں اور پھر اس قرض کو ختم کریں۔ نگراں وزیر کا یہ بھی کہنا تھا کہ توانائی کے بحران کے حل کے لیے قلیل یا طویل مدتی منصوبے اس وقت تک کارگر نہیں ہو سکتے جب تک بجلی کے ٹیرف پر نظرِ ثانی نہیں کی جاتی۔

جب تک سبسڈی سب کو ملتی رہے گی بجلی کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ اس صورتحال میں کوئی سنجیدہ سرمایہ کار کیوں توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرے گا۔ صرف وہ لوگ جو 2 سال میں اپنا سرمایہ لے کر بھاگنا چاہتے ہیں وہی آئیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹیرف اور سبسڈی پر اب بھی نظر ثانی کیوں ضروری ہے ، عوام کو بلات میں مختلف ٹیکسز کے نام پر لوٹا جا رہا ہے ،جب صارف سے معقول رقم بھی لی جا رہی ہو تو پھر بھی بجلی کی سہولت نہ ملے کیا یہ زندہ مارنے کی کوشش نہیں۔

وطن عزیزگزشتہ کئی برس سے بجلی کے شدید بحران کا شکار ہے اور موسم گرم ہوتے ہی اس بحران میں شدت آ جاتی ہے۔ پاکستان میں اس وقت بجلی کا شارٹ فال چھ سے سات ہزار میگاواٹ کے درمیان بتایا جاتا ہے۔آج کل ملک کے بیشتر شہروں میں بارہ گھنٹے سے زائد کی لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے جبکہ دیہات میں یہ دورانیہ بیس گھنٹے تک جا پہنچا ہے۔گرم موسم میں بجلی کی اس طویل بندش کی وجہ سے جہاں گھریلو صارفین مشکلات کا شکار ہیں وہیں صنعتی شعبہ بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔

اب بھی وقت ہے کہ بیورو کریسی کے خود ساختہ قواعد اور لچھے دار دلائل کو یکسر رد کرتے ہوئے واپڈا کی تنظیم نو کی جائے ۔بد دیانت اور خائن ملازمین و افسران کو گھروں کی جانب رخصت کیا جائے ۔اگر ملک میں ایسے بد دیانت لوگوں کی پشت پناہی کی جاتی رہی تو وہ دن دور نہیں جب آگ و خوں کا ریلاسب کو بہا لے جائے گا۔ اس خوفناک صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے متوقع نامزد وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف کو اکھاڑے میں اتارا جا رہا ہے۔

اب دیکھتے ہیں کہ خواجہ آصف مرد بحران بنتے ہیں یا پھر سابق” خوا بدیدہ آرمی چیف خواجہ ضیاء الدین بٹ کی طرح سب کو ڈبوتے ہیں۔ یہ خوفناک اطلاع بھی ہے کہ شارٹ فال بڑھنے سے بریک ڈائون کا خطرہ ہے ،اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ آنے والی حکومت کے لئے نیک شگون نہیں۔

اب عوام خزانہ خالی ہونے کی دلیل سن کر خاموش نہیں رہیں گے جب عوام بجلی کے بھاری بلات کی ادائیگی کررہے ہوں تو پھر خسارے کاکیا جواز رہ جاتا ہے۔ بہر حال یہ تشویش ناک صورت حال انتہائی توجہ طلب ہے جس میں نواز شریف کی ذرا سی کوتائی بڑے بحران کو جنم لے سکتی ہے۔

Abdul Rasool Long

Abdul Rasool Long

تحریر : عبد الرسول لانگو