تبدیلی ہم سے

Winter Night

Winter Night

یہ سردیوں کی سیاہ کالی رات کا واقعہ ہے۔ میں اس رات دوسرے شہر میں اپنے دوست کی شادی میں شرکت کے لئے گیا تھا۔ رات گپ شپ میں دیر ہو گئی۔ واپسی پر بارش شروع ہو گئی۔ کبھی تیز اور کبھی ہلکی۔ بجلی بھی اپنا کام دکھا رہی تھی۔ گرچہ وہ کوئی چھوٹی سڑک نہ تھی مگر اس رات شاذ و نازر ہی کوئی گاڑی سڑک پر نظر آئی ایسا لگتا تھا کہ چرند پرند سب گھونسلوں اور رضائیوں میں گھس گئے ہیں۔ سردی تھی کے ہڈیوں میں گھسے جا رہی تھی۔ پائوں میں ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے برف جمی ہوئی ہے۔ میں جلد گھر پہنچنا چاہتا تھا۔ تیس کلو میٹر کا فاصلہ تین سو لگ رہا تھا۔ میں نے گاڑی کا ہیٹر چلایا مگر اس رات وہ ظالم بھی جواب دے گیا۔ بارش جب تیز ہو جاتو سامنے سڑک پر دیکھنا مشکل ہو جاتا۔ گرم لباس میں، کانوں کے گرد مفلر لپیٹے گاڑی کے سٹیرنگ سے چپکا میں بساط بھر تیزی کا مظاہرہ کر رہا تھا۔

دانتوں کے بجنے سے کپکپی اور بڑھ جاتی رات کے آخری پہر میں نیند کا غلبہ ہونے لگا۔میں بڑی مشکل سے اپنی گلی کے موڑ تک پہنچا ایک سایہ میری جانب بڑھ رہا تھا میں نے وائپر تیز چلا کر اسے دیکھنے کی کوشش کی۔ ایک ضعیف شخص تھا جس نے بارش سے بچنے کے لئے اپنے اوپر پلاسٹک کی شیٹ ڈال رکھی تھی، کپڑے اس کڑا کے کیسردی کو برداشت کرنے کے لئے ناکافی تھے۔دسمبر کی اس سردی میں ایف ایم پر بتایا گیا کہ درجہء حرارت نقطہ ء انجماد سے بھی نیچے ہے۔ میرے دل میں اس کے لئے ہمدردی پیدا ہو گئی میں نے گاڑی کا شیشہ نیچے کیا۔ سٹریٹ لائٹ کی روشنی میں بزرگ کا چہرہ میرے سامنے تھا۔ میں نے کہا بابا جی آپ اس وقت کہاں جا رہے ہیں چلئے بیٹھئے میں آپ کو چھوڑ دیتا ہوں۔ اس نے دھیمے لہجے میں کہا آپ مجھے پہچانتے نہیں میں آپ کے محلے کی مسجد کاموء ذ ن اور گزشتہ پچیس سال سے فجر کی اذان میں ہی دیتا ہوں۔

میرے اوپر گڑھوں پانی پڑ گیا۔ میں نے اپنے آپ کو برا بھلا کہا۔ ایک طرف سے مزین کوٹ سر پر گرم ٹوپی کانوں پر مفلر لپیٹے میں ٹھرو ٹھرو کر رہا تھا اور دوسری جانب آئو فلاح کی جانب اور نماز نیند سے بہتر کی آواز بلند کرنے والا میری گاڑی کے پاس سے مکالمہ کر کے چلا گیا۔کمرے میں گھسا تو بیگم نے گیس کا ہیٹر لگا رکھا تھا۔ کمرہ گرم تھا لیکن مجھے مجھے اس بابے کا احساس اس کے ناکافی کپڑے سر پر پلاسٹک کی شیٹ کا محسوس ہو کر شرمندگی سی ہو رہی تھی میں نے کپڑے بدل کر نماز ادا کی۔اور بستر میں گھس گیا۔ نیند دور دور تک نہیں تھی۔ خیال آتا رہا یہ شخص پچیس سال سے سردیوں گرمیوں میں اذانیں دیتا رہا اور مجھے علم تک نہیں۔ سوچا ہم کتنے ظالم ہیں اسی مولوی کو جاہل کہتے ہیں اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اس دن مجھے محسوس ہوا کہ اصل جاہل تو ہم لوگ ہیں جو ان کی اصلاح کی دعوت کو قبول نہی۔

Allah

Allah

ہمارے دلوں پر مہریں لگ چکی ہیں ہمارے کاموں میں روئی ٹھسی ہوئی ہے۔ اپنی محفلوں میں علماء کا تمسخر اڑانا ہمارا اولین مشغلہ ہے۔ میں نے سوچا کیا میرا رب مجھے معاف کر دے گا۔ میں نے اپنے محلے کی اس مسجد کے امام سے ملاقات کی ٹھان لی۔ انہوں نے میرے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ماں کتنا پیار کرتی ہے جواب دیا بے انتہا، کہنے لگے وہ ستر مائوں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے۔ ہمارے دلوں پر مہر لگانے والے ہمیں اس کا حترام کرنے کی ہمت دے یہ تالے کھول دے۔ہمیں داڑھی کا احترام کرنے کی توفیق عطا فرما۔ اس کی عزت کرنے کی توفیق بخش جو تیری مسجد کے اسپیکروں سے تیری کبریائی کی آواز بلند کرتا ہے۔ جو شریعت کی بات کرتا ہے تو ہم اسے طعنے دیتے ہیں، ہم میں سے گستاخ اس کو سامنے رکھ کر اس کی دعوت کو پتھر کے زمانے میں جانے کی بات کرتے ہیں۔ ہماری صفوں میں مادر پدر آزاد معاشرے کے داعی اٹھا لے، ان کا بیڑہ غرق کر یا رب۔ ہم شیطانی محفلوں میں تو گھنٹوں بیٹھتے ہیں مگر رحمانی محفل کے پاس سے گزرتے بھی نہیں۔ میرے اللہ جس ملک میں رہتے ہیں اس میں اپنا دین نافذ کر دے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام کر دے آمین۔

کیا میں اور آپ بدلیں گے؟تبدیلی ہم سے ہی آئے گی۔
(یہ خیال فیس بک پر لگی ایک پوسٹ کو پڑھ کر آیا)

Iftikhar Chaudhry

Iftikhar Chaudhry

تحریر:انجینئر افتخار چودھری