شمالی کوریا کی بات چیت کے لیے مشروط رضامندی

North Korea

North Korea

شمالی کوریا (جیوڈیسک)شمالی کوریا کا کہنا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی طرف سے عائد پابندیاں ختم کی جائیں، امریکہ اور جنوبی کوریا مشترکہ فوجی مشقیں ختم کریں تو وہ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔پیا نگ یانگ شمالی کوریا نے کہا کہ اگر ان پر اقوامِ متحدہ کی طرف سے عائد پابندیاں ختم کی جائیں اور امریکہ اور جنوبی کوریا مشترکہ فوجی مشقیں ختم کریں تو وہ بات چیت کے لیے تیار ہے۔

مذاکرات کے لیے یہ شرائط شمالی کوریا کی قومی سلامتی کونسل کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہی گئیں ہیں۔ یہ بیان ملک کے سرکاری خبر رساں ادارے کی ویب سائٹ پر شائع کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ اقوامِ متحدہ نے شمالی کوریا پر فروری میں تیسرا جوہری دھماکہ کرنے کے بعد پابندیاں عائد کی تھیں جبکہ امریکہ اور جنوبی کوریا نے مشترکہ جنگی مشقیں مارچ میں شروع کی تھیں۔

شمالی کوریا کے دفاعی کمیشن کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ اور جنوبی کوریا حقیقی طور پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے انہیں اقوام متحدہ کی اس قرارداد کو ختم کرنا ہوگا جو فرسودہ بنیاد پر منظور کی گئی تھی۔ بیان کے مطابق دوسری شرط یہ ہے کہ دنیا کو یہ بتائیں کہ آئندہ سے آپ جوہری جنگ کے لیے مشقیں نہیں کریں گے جو ہماری قوم کے لیے خطرہ ہے۔

بات چیت اور جنگ کا کھیل ایک ساتھ کبھی نہیں چل سکتا۔ شمالی کوریا نے جب زیرِ زمین تیسرا جوہری تجربہ کیا تو اس وقت اقوام متحدہ کی جانب سے اس پر پابندیاں عائد کی گئیں اور تب سے خطے میں حالات کشیدہ ہیں۔ حالیہ دنوں میں شمالی کوریا نے
جنوبی کوریا، جاپان اور علاقے میں امریکی تنصیاب اور مفادات پر حملہ کرنے کی دھمکیاں دی تھیں۔

اسی تناظر میں جنوبی کوریا کی صدر پارک جیون ہے نے شمالی کوریا کو بات چیت کرنے کی دعوت دی تھی لیکن شمالی کوریا کا کہنا ہے کہ مذاکرات کی اس طرح کی پیشکش دراصل ایک چال ہے۔ امریکہ نے بھی شمالی کوریا سے بات چیت کرنے کو کہا ہے لیکن امریکہ کی شرط یہ ہے کہ پہلے شمالی کوریا جوہری ہتھیاروں سے پاک ہونے کے معاہدے پر عمل کرے۔

ادھر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان گی مون نے بھی شمالی کوریا سے جنوبی کوریا کے ساتھ بات چیت پر سنجیدگی سے غور کرنے کو کہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ جنوبی کوریا نے حال ہی میں جو بات چیت کی پیشکش کی ہے وہ حقیقی ہے اور شمالی کوریا کو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے۔