پیاروں کے بغیر عید

Terrorism

Terrorism

عید آ چکی ہے ہم میں سے بہت سے خاندان ایسے بھی ہیں جن کے قریبی عزیز اسلام اور ملک کی سر بلندی کے جام شہادت نوش فرما چکے ہیں اور ایسے بھی موجود ہیں جن کے خون کے رشتے کسی نہ کسی دہشت گردی کا شکار ہوئے جن کو بھلانا ناممکن ہے جب کے بغیر ہر خوشی ادھوری لگتی ہے اور اکثر گھروں میں غربت کے باعث عید کی خوشیاں خواتین سے بھی کوسوں دور ہیں جنہوں نے رمضان المبارک کے مہینہ میں خاص طور پر سحری اور افطاری کا انتظام کیا مگر سب سے پہلے خیبر پختونخواہ میں پیش آنے والے وقعہ پر تھوڑا سا عرض کردوں اسکے بعد اصل موضوع کی طرف آتا ہوں ڈیرہ اسماعیل خان جیل واقعے کے دوران دہشتگردوں کے خلاف فوری کاروائی کیوں نہیں کی گئی جیل کے عملے نے گولی کیوں نہیں چلائی اگرتربیت کی کمی ہے توجیل عملے کو تربیت کی تمام سہولتیں صوبائی حکومت فراہم کرے فرنٹئیر کانسٹیبلری کو چوکیداری کی بجائے ان کااصل کام انکے حوالے کیا جائے۔

جو قبائلی علاقے اور صوبے کی سرحد پر سکیورٹی فراہم کرنے کے علاوہ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروںکے ساتھ مل کر امن وامان قائم کرنا ہے قانون نافذ کرنے والے اداروںکے درمیان باہمی رابطے اور مشترکہ حکمت عملی انتہائی ضروری ہے قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کوایک ٹیم کی طرح کام کرنا ہوگا امن کے بغیر ترقی محال ہے۔ اب اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں کہ دین اور ملک و ملت کی حفاظت و سر بلندی کیلئے جام شہادت نوش کرنے والے شہداء پوری قوم کے عظیم محسن ہوتے ہیں جو نہ صرف دلوں میں مر ہو جاتے ہیں بلکہ انکے بال بچوں کی کفالت پورے معاشرے اور ریاست کی ذمہ داری بن جاتی ہے ملک میں گزشتہ کئی عشروں سے جاری بدامنی اور ہزاروں سیکورٹی جوانوں اور شہریوں کی شہادت غیرملکی مداخلت اور سازشوں کا
شاخسانہ ہے۔

Atom Bomb

Atom Bomb

جس کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے اسکی روک تھام کیلئے قومی سطح پر اتفاق رائے سے پالیسی کی تشکیل ضروری ہے ورنہ باہمی اختلافات اور سیاسی چپقلش کی وجہ سے نئی حکومتوں کے پانچ سال بھی خاک و خون کی نظر ہو جائیں گے اور عوام نت نئی مصیبتوں کا شکار ہوتے رہیں گے جو کسی صورت قبول نہیں آج قوم کو ایٹم بم سے زیادہ اتحاد کی ضرورت ہے منتشر و منقسم قوم کو ہزاروں ایٹم بم بھی نہیں بچا سکتی نظریاتی خلفشار کے سبب خود کو سپر پاور کہنے والی ریاست سوویٹ یونین کے کئی ٹکڑے ہو گئے اور اس کا دنیا کے نقشے میں وجود ہی مٹ گیا جو پوری دنیا کیلئے عبرت ناک ہے ہمیں سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی مفاد کیلئے سوچنا اور متفقہ لائحہ عمل اختیار کرنا ہو گا اسکے ساتھ ساتھ ہمیں خاص طور پر عورتوں کے ساتھ بھی انتہائی شفقت آمیز رویہ اختیار کرنا چاہیے اسلام فرد، خاندان اور معاشرے کو ہر سطح پر رہنمائی دیتا ہے اس لیے اسے مذہب نہیں دین کہا گیا ہے اور یہ پوری انسانیت کو مکمل ضابط حیات فراہم کرتا ہے۔

دین اسلام کی خوبصورتی ہے کہ یہ سماجی، سیاسی، معاشی، تجارتی، خاندانی اور عائلی زندگی سمیت زندگی کے ہر گوشے سے جڑے مسائل کا مکمل حل پیش کرتا ہے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات مقدسہ رہتی دنیا تک کے لیے سینکٹروں ہزاروں شعبوں سے متعلق افراد، جن کا تعلق مختلف تہذیبوں، ثقافتوں اور مذاہب سے ہو گا کے لیے آئیڈیل رہے گی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خواتین کے حقوق کو جس طرح تحفظ دیا وہ رہتی دنیا تک حوا کی بیٹیوں کو استحصال اور ظلم سے بچا کر دنیا کے مختلف معاشروں میں انہیں مردوں کے برابر حقوق دیتا رہے گا شادی میں عورت کی رضا مندی کو لازمی قرار دے کر اسلام نے اسے برابری کا حق اور عزت دی ہے امور خانہ داری شرعی طور پر عورت کے فرائض میں شامل نہیں ہیںیہ ہمارا کلچر بن گیا ہے۔

اسلام نے ان امور کی انجام دہی کا اسے پابند نہیں بنایا وہ یہ سب کام کر کے اپنے شوہر پر احسان کرتی ہے اس لیے شوہروں کو اپنی بیویوں سے محبت اور احسان مندی سے پیش آنا چاہیے بیوں بچوں کو عام روٹین سے ہٹ کر اچھا کھانا کھلانا اللہ کی راہ میں کھلانے سے بد رجہا بہتر ہے بیوی سے حسن سلوک اور محبت سے پیش آنے کے حوالے سے احادیث کی کتابیں بھری پڑی ہیں افسوس ہمارا معاشرہ عورت کے استحصال کی بدترین تصویر پیش کررہا ہے نمک کم یا زیادہ ہوجانے پر برتن اٹھا کر پھینکے جاتے ہیں بیویوں کو مار پیٹ کرنا معمول ہے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عورت پر تشدد اور گالی گلوچ کرنے والے کو کمینہ شخص قرار دیا ہے بیویوں کو نوکرانی اور پائوں کی جوتی سمجھنے والے مرد حضرات خدا کا خوف کریں اور دین کی اصل روح کو سمجھ کر اپنی اصلاح کریں عید الفطر کے پر مسرت موقع پر یتیم بچوں اور بیوائوں کو بھی خوشیوں میں شامل کیا جائے۔

فلاحی اداروں اور مخیر شہریوں کو بھی اس کار خیر میں حصہ لینا چاہیے آخر میں ایک خبر کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی جانب سے اے پی سی میں عدم شرکت کے اعلان کے بعد قومی سیکیورٹی پالیسی کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کا معاملہ عمل کھٹائی میں چلا گیا تھا اور اب ایک بار پھر حکومت آل پارٹیز کانفرنس بلانے کیلئے عیدالفطر کے بعد ملکی سیاسی قیادت سے دوبارہ رابطوں کا آغاز کریگی۔

Rohail Akber

Rohail Akber

تحریر : روہیل اکبر
03466444144