ہمارا قانون !!!!

Police

Police

قانون اس لیے بنایا جاتا ہے، تاکہ ملک کے تمام لوگوں کی حفاظت کی جائے، جس میں ہمارا قانون ہماری پولیس ہے، جو ہماری جان و مال کی حفاظت پر معمور ہے،اور انکا بنیادی کام ہماری حفاظت ہے، اور عدالتیں ہمارے انصاف کے لیے بنائی گئی ہیں، تاکہ ظالم کو سزا ملے اور مظلوم کو اس کا حق و انصاف ملے، ہمارے پولیس میں ملازم دن رات ہماری خدمت کیلے اپنی صحت کی پرواہ نہیں کرتے اور جن کی ڈیوٹی ناکہ پر ہوتی ہے۔

وہ گرمی ہویا سردی میں بھاری بوٹ پہنے سارا دن کھڑے رہتے ہیں اور دوسری طرف ٹریفک پولیس ملازم اشارے پر کھڑے ہو کرسارا دن ٹریفک کو کنٹرول کرتے ہیں ، اورہمیں حادثات سے بچاتے ہیں، اس کے برعکس ہم لوگ (عوام) قانون کی پاسداری نہیں کرتے اور اگر یہ ہماری خلاف ورزیوں پر ہمیں جرمانہ یا سزا دیتے ہیں تو الٹا ہم ان سے ناراض اور انکے خلاف غلط بولتے ہیں، اور دوسری طرف ہماری پنجاب پولیس جس کی ذمہ داری شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کرنا ہوتی ہے لیکن یہاں کچھ اور ہی ہوتا ہے ہر فرد ان کے خلاف غلط لفظ بولتا دیکھا جاتا ہے اسکی کیا وجہ ہے۔۔۔۔؟

وجہ یہ پنجاب پولیس ملازم شہریوں کی حفاظت کی بجائے شہر میں غنڈہ گردی کرتے ہیں، اور اگر کسی غریب فرد کے ساتھ کوئی زیادتی یا اس کے مال وغیرہ کی چوری یا ڈکیتی ہو جائے تو وہ پولیس سے مدد ہی نہیں طلب کرے بوجہ کہ پولیس سے مدد لینے کے لیے کافی ذیادہ پیسے ان کے لیے خرچ کرنا پڑتے ہیں کیونکہ پولیس کوئی بھی عمل کرنے سے پہلے مدعی سے پیسے لیتے ہیں چلیں یہ جائزہ لیتے ہیں کہ اگر کسی شخص کے گھر چوری یا ڈکیتی ہوتی ہے تو اس شخص FIR یا رپٹ درج کروانے کے لیے وہ متعلقہ تھانہ یا متعلقہ چوکی جاتا ہے۔

سب سے پہلے اسے اس چوکی یا تھانہ کے باہر بیٹھے چوکیدار یا پہرہ دار کو پیسے دینے پڑتے ہیں تاکہ تھانہ کے اندر یا باہر جانے میں رکاوٹ نہ بنے بعد میںتھانہ کے اند ر بیٹھے منشی کو رپٹ یا FIR(ایف ۔آئی ۔ آر) درج کروانے کے لیے اس کی مٹھی میں کم ازکم ایک نیلا نوٹ تو دینا پڑتا ہے، اگر کوئی فرد نہ دے سکے تواس کے لیے ان کے ہاں کوئی رعائت نہیں اور اس کی رپٹ درج ہونا تو ممکن ہی نہیں اور ایسے فرد کی حفاظت کی ذمہ داری اس پولیس کی نہیں بلکہ یوں لگتا ہے کہ یہ پولیس صرف اعلٰی افسروں اور دولت مند افراد کے لیے ہے لیکن وزیر اعلٰی پنجاب نے اس سب سے بگڑے ہوئے محکمہ کو کافی حد تک ٹھیک کر دیا ہے۔

اور پولیس اب فوری عمل درآمد کرتی ہے، لیکن خود ابھی خلاف ورزیاں کرنے سے باز نہیں آئے، جو بھی پولیس ملازم کے پاس بائیک ہے تو اس کی بائیک کی نمبر پلیٹ یا تو نہیں ہوگی اگر ہوئی تو نمبر نہیں ہوگا، بس نام کی نمبر پلیٹ وہ بھی نیلی اورلال اور لکھا ہوتا ہے کہ پنجاب پولیس ، تاکہ ناکہ لگائے پولیس ملازم دیکھ کر ہی سمجھ جائیں کہ اس فرد پر قانون لاگو نہیں ہوتا، ان پولیس ملازمین کا لوگوں کے ساتھ غلط رویہ کی وجہ سے لوگوں کے دل میں ان کے لیے نفرت پیدا ہوگئی ہے،کہلاتے محافظ ہیں لیکن ملک کے سب سے بڑے ڈاکوبھی یہی ہیں، ایک دن میں اپنے دوست کے ہمراہ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے Examination Hallگیا ، میرئے دوست کا پیپر تھا، میں باہر اس کے انتظار میں بیٹھا تھا، باہر بہت سے کھانے کے سٹال لگے تھے۔

چند پولیس ملازمین کی بھی امتحان حال کے باہر ڈیویٹی تھی جن میں سے ایک پولیس ملازم آیا اور بار بار ایک پٹھان کی ریڑی سے چنے اٹھاتا اور چباتے چباتے وہاں چہل کرنے لگا، اور ریڑی سے چنے اٹھانے کی کئی بار اپنی حرکت دھرائی میں پھر اس ریڑی والے کے پاس گیا، اور پوچھا کہ یہ آپکو پیسے نہیں دیتے تووہ چنے فروش نے اس پولیس والے کی حرکت سے تنگ آئے ہوئے انداز میں کہا کہ یہ فری کھاتے ہیں اور اگر انہیں منع کریں تویہ تنگ کرتے ہیں تو میں نے اس چنے فروش کو تسلی دی اور کہا پریشان مت ہوں اب وہ پولیس ملازم چنے کھانے کے لیے آئے تو میں خود ہی کہ دوں گا، میں کافی دیر انتظار کرتا رہا لیکن وہ نہیں آیا اور اند ر سے دوسرا پولیس ملازم آیا اور وہاں دہی بھلے والے سے اس نے ایک پیالہ دہی بھلے کا آرڈر کیا، یوں لگتا تھا کہ صاحب انہیں اس کے پیسے دیں گے، لیکن کھا کر چلنے لگا اور میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا، پولیس ملازم نے اپنے انداز پولیس میں پوچھا کیا مسلئہ ہے۔

Police Employee

Police Employee

تو میں نے کہا کہ آپ نے ان سے دھی بھلے کھائے ہیں ان کے پیسے تو دیںیہ لوگ گھر سے روزی کمانے کے لیے آتے ہیں اور آپ ان سے فری میں ایسے کھاتے ہیں جیسے یا تو آپکو گورنمنٹ تنخواہ نہیں دیتی یا تو یہ جو دھی بھلے کے لیے سامان لاتے ہیں انہیں فری میں ملتا ہے، پولیس ملازم غصہ سے بولا کہ کیوں اپنے آپ کو پھنسانا چاہتے ہو۔۔؟ میں نے کہا کہ اس حق پہ مجھے آج پھنسنے دو، ملازم کہنے لگاکہ ہم آپکے ملک کے محافظ ہیںہمارے ساتھ ایسا سلوک اچھا نہیں تومیں نے اسے بتایا کہ بھائی جان یہ جو آپ نے عمل ابھی کیا ہے اس سے تو آپ محافظ نہیں لٹیرے لگ رہے ہیں۔

کچھ دن پہلے میں دفتر سوئی گیس ٹھوکر نیاز بیگ ملتان روڈ پر اپنے گھریلو سوئی گیس کنکشن کے لیے گیا تھا، اور بجلی نہ ہونے کی وجہ سے باہر کافی دیر بیٹھا رہا اور وہاںبہت سی حرکات دیکھیں ایک طرف پولیس ملازم کی وہاں پر لوگوں کی حفاظت کی ڈیوٹی تھی اور وہ وہاں جو اپنی گاڑی یا موٹرسائیکل کو لاک (Lock)نہیںکرتا تو اسے لاک کرنے کا مشورہ دیتا اور جو لاک کیے بنا چھوڑجاتا اس کی موٹر سائیکل کی حفاظت کے لیے اسے موٹرسائیکل اسٹینڈ میں پارک کرتا تاکہ کوئی چور ہی موٹر سائیکل کو چوری نہ کر لے ، اور جب وہ بندہ دوبارہ لینے آتا تو صرف اسے یہ بتاتا اگر میں اسکی حفاظت نہ کرتا تو اور کوئی اور چوری کر لیتا تو کیا اچھا تھا بس لوگوں کو سبق دیتا تھا۔

اس طرح اپنی گاڑی وغیرہ کو باہر نہ کھڑا کیا کریں اچھی طرح لاک کیا کریں تاکہ آپکی گاڑی کو کوئی چُرا نہ لے اور میں ایک بات سے حیران تھا کہ وہ پولیس ملازم کسی سے نہ تو رشوت لیتا بس تھوڑی دیر لیکچردینے کے بعد موٹر سائیکل وغیرہ ان کو واپس دے دیتا اور بہت اچھے انداز میں بات کرتا اور دوسری طرف دیکھا کہ ایک فرد موٹر سائیکل اسٹینڈ پر لے کر آتا ہے اورموٹرسائیکل اسٹینڈ پر کھڑا موٹر سائیکلوں کی حفاظت کرنے والاذمہ دار شخص اسے بائیک کی حفاظت کے لیے ٹوکن دیتا ہے اور وہ فرد ٹوکن لے کر اسٹینڈ سے باہر نکل کرپھینک دیتا ہے اور اسٹینڈ والا جا کر ٹوکن پکڑلیتا ہے جب وہ فرد بائیک واپس لینے آتا ہے تو اسٹینڈ ذمہ دار ٹوکن طلب کرتا ہے تو کہتا ہے کہ نہیں ہے۔

وہ ذمہ دار کہتا ہے کہ میں ٹوکن کے بغیر آپکو موٹرسائیکل کیسے دے دوں جو آپ نے ٹوکن پھینک دیا تھا اگر کوئی اور فرد وہ ٹوکن لے کر آجاتا تو میں آپکی موٹر سائیکل اس کو لے جانے دیتا کیونکہ کہ وہ ٹوکن رکھنے والا اس اسٹینڈ پر موٹر سائیکل کا مالک ہے تو وہ فرد بائیک سے اتر کر مارنے کے لیے آیا اور بتاتا ہے کہ اس موٹر سائیکل کو ناکہ پر کوئی نہیں روک سکتا تم کون ہوتے ہو مجھے روکنے والے میں جومرضی کر سکتا ہوں میں تھانہ چوہنگ کے SHO(ایس ایچ او)کو بھتیجا ہوں مطلب کہ جس کا قانون کے ساتھ زرا بھی تعلق ہو یا وہ خود قانون کا ملازم ہو اس پر قانون لاگو ہی نہیں ہوتا، ایک مرتبہ میرا بھائی عاصم اپنی ڈیوٹی سے رات دس بجے واپس آرہا تھا کہ رستہ میں ڈاکوں نے اس سے سب کچھ چھین لیااور تھوڑا سا آگے ناکہ تھا بھائی نے ناکہ پر کھڑے ملازم سے کہا تو اس نے کہا تو ہم کیاکریں اورپھر ہم تھانہ رپٹ کیلیے گئے تو وہاں جانے پر انہوں نے شور مچایا کہ یہ ہماری حدود نہیں ہے۔

ہم رپٹ درج نہیں کریں گے آپ تھانہ چوہنگ جائیں تو ہم تھانہ چوہنگ گئے اور انہیں سارا واقعہ بتایا توانہوں نے کہا کہ ہم ڈکیتی کا پرچہ نہیں کر سکتے آپکی جو چیزیں چھینی گئی ہیں انکی ہم گمشدگی کی رپٹ لکھ کر دے سکتے ہیںاور ہم نے یہی رپٹ لکھوا لی تاکہ شناختی کارڈ وغیرہ کا حصول ہو سکے اور یہ ڈکیتی کی رپٹ اس وجہ سے نہیں لکھتے کیونکہ اگر یہ اس طرح لکھیں گے تو انہیں وہ ڈاکو ڈھونڈنے پڑیں گے اب وزیر اعلٰی شہباز شریف نے ہر موڑ پر ناکہ لگوایا ہے تاکہ جرائم پر قابو پایا جاسکے ایک بات کی مجھے سمجھ نہیںآتی کہ ہر موڑ پر ناکہ ہے اور موٹرسائیکل اور گاڑی کی تلاشی ہوتی ہے تو عام لوگ اپنے ساتھ پستول وغیرہ لے کر کیسے گھوم سکتے ہیں اگر پستول ہوتی ہے۔

تو صرف پولیس ملازم کے پاس چاہے وہ یونیفارم ہے یا سول میں جہاں میرے بھائی کی ڈکیتی ہوئی اس سے آگے ناکہ ہے اور وہ موٹرسائیکل پر ڈکیتی کرتے ہیں اور ناکہ سے بچ کیسے جاتے ہیں یہی عمل کچھ دن بعد میرے ابو کے ساتھ ہوا وہ پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے آرہے تھے اور ٹھوکر پل پر بالکل اسی جگہ جہاں میرے بھائی کے ساتھ ڈکیتی ہوئی تھی وہاں ابو کے ساتھ بھی ایسے ہی ڈکیتی ہوئی جب ابو نے گھر آکر بتایا تو دل پر بہت درد ہوا اور بہت غصہ آیا کہ یہ پولیس کیا کرتی ہے۔۔؟ یا تو یہ خود ہی لوگوںکو لوٹتے ہیں اور ناکہ سے پنجاب پولیس کہ کر بچ جاتے ہیں، اگر ایسا ہو کہ قانون پاس ہوجائے کہ جس علاقہ میں چوری یا ڈکیتی ہو جائے تو اس علاقہ کا ایس ایچ او اس چوری کی رقم اداکرئے تو ممکن ہی نہیںکہ کہیں کوئی بھی جرائم ہو۔

Mohammad Ahsan Chaudhary

Mohammad Ahsan Chaudhary

تحریر : محمد احسن چوہدری