فلسطین پر اسرائیلی بربریت

Israel Attack

Israel Attack

اسرائیل نے امریکہ کی مدد سے ظلم و بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطین پر میزائلوں کی بارش اور زمینی حملہ کردیاہے جس سے اب تک 500 سے زائد فلسطینی جن میں بوڑھے، جوان، خواتین اور بچے شامل ہیں شہید ہو چکے ہیں جبکہ 3000 سے زائد زخمی ہوئے ہیں جن میں سے 300 کی حالت نازک ہے۔ اسرائیلی جارحیت سے درجنوں مساجد، سینکڑوں مکانات اور متعدد سرکاری و غیر سرکاری عمارات کو مسمار کیا جاچکا ہے۔ غزہ کے ہسپتال دردناک منظر پیش کر رہے ہیں۔ مردہ خانے بھر گئے ہیں۔ ہسپتالوں کی راہداریوں میں لاشوں کے اوپر لاشیں پڑی ہیں۔ غزہ کے محاصرہ سے ہسپتالوں میں 225 قسم کی ادویات موجود ہی نہیں ہیں۔

لیبارٹریز میں استعمال ہونے والے طبی آلات، کیمیکل کی کمی پائی جاتی ہے۔ ایندھن کی کمی کے باعث ایمبولینس سروس معطل ہو چکی ہے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے نمائندہ خاص ریچرڈ فولک نے غزہ پر اسرائیلی فضائی حملوں کو بین الاقوامی قوانین کی بدترین خلاف ورزی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اسرائیل سے تعاون کرنے والے ممالک اسرائیلی جارحیت میں برابر کے شریک ہیں۔ خواہ یہ تعاون اسرائیل کو جنگی سازوسامان دے کر یا پھر یا غزہ کے خلاف ناکہ بندی میں شریک ہو کر دیا گیا ہو۔ انہوں نے کہا کہ تمام ممالک کو فلسطینیوں کی مدد کے لئے سامنے آنا چاہیے صرف مذمتی بیانات کافی نہیں ہیں۔

جب نیویارک میں عرب ملکوں کی درخواست پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس ہوا۔ لیبیا نے اجلاس میں 22 ممالک کی طرف سے قرارداد کا مسودہ پیش کیا جس میں اسرائیلی کارروائی کی مذمت کی گئی اور حملے روکنے کا مطالبہ کیا گیا تو امریکہ برطانیہ سمیت بعض مغربی ممالک نے قرارداد کا مسودہ غیر متوازن اور یک طرفہ قرار دے کر مسترد کر دیا۔ قرارداد کا مسودہ مسترد ہونے سے نام نہاد انسانی حقوق کے علمبردار ممالک کے چہروں سے نقاب ہٹ گیا ہے۔ ایک اسرائیلی کی لاش دیکھ کر تڑپ اٹھنے والے امریکہ، برطانیہ سمیت مغربی ممالک کو فلسطین میں ہونے والی بدترین دہشت گردی کیوں نظر نہیں آتی۔ جانوروں کے حقوق یاد دلانے والوں کو غزہ کے محاصرہ سے ادویات کی قلت پیدا ہو جانے سے سسک سسک کر دم توڑنے والے مریض کیوں دکھائی نہیں دیتے۔ اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ اسرائیل کی ناجائز ریاست کے قیام اور فلسطینیوں پر ظلم و بربریت میں امریکہ برابر کا شریک ہے۔

ایک رپورٹ میں بتایا جاتاہے کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد1918میں برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کر لیا تو 25اپریل1922کو لیگ آف نیشنز نے فلسطین پر قبضہ کو جائز قرار دے دیا۔ 1917میں برطانیہ کے وزیر خارجہ آرتھر بیلفور نے برطانیہ کی طرف سے لارڈ راتھ شلڈ نامی صہونی لیڈر کو ایک خط لکھا جس میں فلسطین میں یہودی ریاست بنانے کی یقین دہانی کرائی۔ یورپ سے یہودیوں کی آمد جاری رہی۔1918میں فلسطین میں یہودیوں کی تعداد 67000تک پہنچ گئی۔ 1930تک برطانیوی امداد سے تین لاکھ سے زائد یہودی یورپ اور روس سے فلسطین پہنچائے گئے۔ 1929میںفلسطینیوں اور یہودیوں میں جھڑپیں شروع ہوئیں جن کی ابتداء یہودیوں نے کی مگر برطانیوی پولیس نے یہودیوں کے خلاف کوئی اقدام نہ اٹھایا اس کے برعکس مسلمانوں کو تشدد کانشانہ بنایا گیا۔ برطانیہ کے رائل کمیشن کے سربراہ لارڈ پیل نے 1937میں تجویز دی کہ فلسطین کو تقسیم کر کے تیسرا حصہ یہودیوں کو دے دیا جائے اس وقت فلسطین میں یہودیوںکی املاک نہ ہونے کے برابر تھیں اس کے خلاف فلسطینی دو سال تک احتجاج کرتے رہے وہ چاہتے تھے کہ تقسیم نہ کی جائے صرف اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیاجائے مگر برطانیہ نے مذید فوج منگواکر تشدد اور ظلم کے انتہا کر کے اس احتجاج کو کچل دیا۔برطانیہ نے 1947میں فلسطین کامعاملہ اقوام متحدہ کے حوالے کر دیا۔

United Nations

United Nations

اقوام متحدہ نے کمیٹی بنائی جس نے سفارش کی کہ فلسطین کے ساڈھے 56 فیصد علاقے میں صرف 6 فیصد کے مالک یہودیوں کی ریاست اسرائیل قائم کردی جائے۔ 29 نومبر1947 کوجنرل اسمبلی نے 13 کے مقابلہ میں 33 ووٹوں سے اسکی منظوری دے دی گئی۔ فسلطینوں نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا تو یہودیوں نے فلسطینی مسلمانوں پر تابڑ توڑ حملے شروع کردیئے یہودیوں نے بیت المقدس میں کنگ ڈیوڈ ہوٹل کو دھماکے سے اڑا دیا جس میں 91لوگ مارے گئے اور بہت سے زخمی ہوئے یہ دنیا کی پہلی باوردی دہشت گردی تھی۔مرنے والوں میں کئی برطانوی فوجی بھی شامل تھے۔ برطانیہ نے اعلان کیا کہ وہ 15مئی1948کو اپنی حکومت ختم کر دے گا۔ مسلمانوں پر حملے تو پہلے ہی شروع ہو چکے تھے۔

تاریخی حوالے سے 1948 میں اچانک مسلمانوں پر بڑے حملے شروع کیے اور فلسطین کے کچھ حصوں پر قبضہ کر لیا اور یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس دوران امریکہ یہودیوں کو مالی اور فوجی امداد مہیا کر رہا تھا۔ 14 مئی 1948 کو چار بجے یہودی ریاست اسرائیل کا اعلان کر دیا تو فلسطینی مسلمانوں پر حملے معمول بن گئے۔ مسلمانوں پر حملے کرنے والے یہودی دہشت گرد تنظیموں ہاگانہ، اوردے ونگیٹ، ارگون، لیہی، لیکوڈ، ہیروت اورمالیدت کے تربیت یافتہ تھے۔ نامور دہشت گرد یہودی جو اسرائیلیوں کے لیڈر بھی ہیں۔ موشے دیان جو 1953 سے 1957 تک اسرائیل کی افواج کا چیف آف سٹاف رہا۔ مناخم بیگن جو 1977 میں اسرائیل کا وزیراعظم بنا۔ تیزہاک شمیر جو 1983 میں وزیر اعظم بنا۔ ایرئیل شیرون سابقہ وزیراعظم ہے۔ صابرہ اور شتیلا کو گھیرے میں لے کر وہاں مقیم چار ہزار نہتے فلسطینیوں کو قتل کرنے کا حکم دینے والا بھی ایرئیل شیرون ہی تھا جو ان دنوں اسرائیل کا وزیر دفاع تھا۔ دہشت گرد صیہونی تنظیموں کا مقصد بہت بڑی صیہونی ریاست بنانے کا ہے۔ جس کا نقشہ 1896 میں تھیوڈور ہرسنل نے پیش کیا تھا۔ یہی نقشہ 1947 میں دوبارہ ربی فشمن نے پیش کیا۔ اسرائیلی اسی منصوبے پر عمل پیرا ہیں اس میں ان کی ہرطرح سے امریکہ مدد کررہا ہے۔ حالیہ بڑی کارروائیاں اسی سلسلے کی کڑی ہیں لیکن اسرائیل کے تمام لیڈروں کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے کسی ایک کا تعلق فلسطین تو کیا سرزمین عرب سے بھی نہیں۔ تھیوڈورہرسنل کا تعلق ہنگری، بن گوریاں پولانسک پولینڈ کا ، گولڈ امیئرکیو یوکرین کی، مناخم بیگن بریسٹ لٹواسک روس کا۔ نیسہاک شمیر روز نیوف پولینڈ کا، خائم وائسمین جو اسرائیل کا پہلا صدر بنا وہ موٹول پولینڈ کا تھا۔ اسرائیل کا وجود زور و جبر کا مرہون منت ہے۔

Palestine Killing

Palestine Killing

اگر ہم تاریخ میں جھانکیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ امریکہ شروع دن سے مسلمانوں کے قتل عام میں بلا واسطہ یا بلواسطہ ملوث ہے عراق میں لاکھوں معصوم لوگوں کا قتل عام ہو یا افغانستان میں آتش و آہن کی بارش ہو فلسطین میں آئے دن قتل عام ہو یا مقبوضہ کشمیر میںلاشیں گرائی جائیں سب امریکہ کی آشیربا سے ہور ہا ہے۔ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے امریکہ کاظلم بھی حد سے تجاوز کر چکا ہے معاشی بحران کا عفریت امریکہ کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ امریکہ کے ساتھ ہی ہونے والا ہے جو ظلم کرنے والے اور غیر منصف کے ساتھ ہوتا ہے۔ پھر اسرائیلی کس کو مدد کے لئے پکاریں گئے اسرائیلی بھی اپنے عبرت ناک انجام سے خوفزدہ ہیں۔جو انہیں قریب دکھائی دے رہا ہے۔

تحریر: چوہدری رحمت علی بلاجی راہنما پاکستان مسلم لیگ (ن)