غریبوں ڈرنا مت! ہوا پی کے جینا

Poverty

Poverty

ارضِ وطن کی اکثریت غربت، افلاس، بھوک، بے روزگاری،بے کاری، اور مہنگائی کے بھاری بھرکم بوجھ تلے چیخ اور کرّاہ رہی ہے لیکن حکمران ہیں کہ شاہی محلات میں بیٹھ کر دادِ عیش دے رہے ہیں اور وہیں سے بلند و بانگ دعوے بھی کررہے ہیں کہ غرب کی شرح اتنے فیصد کم ہو گئی ہے وغیرہ وغیرہ!اس معاملے میں غیرحقیقت پسندانہ فرضی اور مبالغہ آمیز اعداد و شمار پیش کرکے خیالی جنت کے نقشے پھیلائے جا تے ہیں اور مفلوک الحال عوام کومعاملات کی صداقت سے بے خبررکھنے یاانہیں گمراہ کرنے کے لئے شاطرانہ چال بازیاں کی جا تی ہیں۔جبکہ انہیں بھی معلوم ہے کہ غربت کی شرح ہمارے ملک میں کس قدر زیادہ ہے۔

بے روزگاری اور بے کاری کا کیا حال ہے۔ ہم نے ابھی تازہ تازہ کل ہی اپنی آزادی کا 66واں جشن منایاہے یعنی کہ ہمارا ملک چھیاسٹھ سال کا ہو گیا مگران تمام سالوں میں ہم نے ترقی نہیں کی، ہمارے یہاں غربت، افلاس، بے روزگاری اور بے کاری میں کمی نہیں آئی۔ ان معاملات پرکبھی بھی ہمارے حکمرانوں نے سوچاکہ آخرایساکیوں ہے؟ ہمیں اب ان تمام معاملوں میں (جو کہ بنیادی ضرورتیں ہیں)اب سر جوڑنے کی ضرورت ہے، بجائے پرانے معاملات حل ہونے کے عوام نت نئے مشکلات سے دو چارہوتے جا رہے ہیں۔

کس قدر ستم ظریفی ہے کہ نام نہاد اور خود ساختہ عوامی نمائندے خود تو بنگلوں اور کوٹھیوں میں اے سی لگاکر بیٹھے ہیں ،فائیو اسٹار ہوٹلوں میں بریک فاسٹ، لنچ، اور ڈنرسے لطف اندوز ہوتے ہیں، قیمتی لباس پہنتے ہیں،سواری کے لئے تازہ بہ تازہ ماڈل کی کاریں زیر کارلاتے ہیں، ہوائی جہازوں کے اے کلاس میں سفرکرتے ہیں،مطلب یہ کہ جدیدزندگی کی تمام ترسہولتوں سے فیض یاب ہو رہے ہیں لیکن غریبوں، مسکینوں، مجبوروں اور ستم رسیدہ عوام کی اکثریت کو روکھی سوکھی روٹی بھی میسر نہیں، نیلے آسمان کے نیچے جہاں اکثر کو جھونپڑی بھی میسر نہیں، وہ کھانے کے لئے ترس رہے ہیں۔

اور علاج و معالجہ، بناء دوائی، بناء پڑھائی، اور مفلوک الحالی کی زندگی گزارنے کی وعظ خوانی کر رہے ہیں۔انسانیت کے ساتھ اس سے بڑا مذاق کیا ہو سکتا ہے۔ ان پارلیمانی شہزادوں کے اونچے اونچے خواب جو حقیقت کا روپ دھارچکے ہیں درحقیقت ملکۂ روم قلو پطرہ سے ملتے جلتے ہیں۔ جب روم میں لوگ نان شبینہ کے لئے ترستے ہوئے احتجاجی مظاہرے کررہے تھے تو ملکہ نے اس کی وجہ پوچھی۔ مصاجین نے بتایا کہ وہ روٹی نہ ملنے کے باعث پروٹسٹ کر رہے ہیں تو ملکہ نے بر محل جواباً کہا کہ کیا انہیں دودھ وغیرہ بھی نہیں ملتا۔

People

People

اسی طرح ہمارے پارلیمانی شہزادے بھی غریب اور مفلس عوام کو ناقابلِ برداشت زندگی بسر کرنے کے لئے اور حالات پر قناعت کرنے کی تلقین کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ ان جمہوری شہزادوں کا طرزِ عمل کسی طرح پرانے سلطانوں اور بادشاہوں سے ہرگز مختلف نہیں ہے۔ اور بے چاری بے بس عوام یہ کہہ کر خاموش ہو جاتے ہیں:

ہم کو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن

عوام کی یہ حالتِ زارکیوں ہے؟ کس لئے ہو رہی ہے؟ اس کا ذمہ دارکون ہے؟ کیا جمہوری نظام جس کے کرتا دھرتائوں کی سرشت میں کذب بیانی، خود غرضی، استحصال اورلوٹ کھسوٹ کا زہریلا رس گھلا ہوا ہے۔ اور جمہوریت کے طفیل ہی اصل میں اقتدار پر گماشتہ سرمایہ داروں، وڈیروں، جاگیرداروں اور لینڈ لارڈوں کا قبضہ ہے جنہوں نے شاہی لباس ترک کرکے جمہوری لبادہ اوڑھ رکھا ہے اور وہ علامہ اقبال کے الفاظ میں جو انہوں نے ” ارمغانِ حجاز ” میں ” ابلیس اور اس کی مجلس شوریٰ ” میں ابلیس سے کہلوائے تھے، اس پر ہی عمل در آمدکرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
میں نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر

حالات و واقعات کواگرآپ غورسے دیکھیں اوراس کاتجزیہ کریں توہمارے ملک کے عوام کی حالت اُس حالت سے ہرگز بہتر نہیں ہے جو زار شاہی روس میں تھی۔ انقلاب فرانس سے پیشتر تھی یاچیانگ کای شیک کے دورمیں چین کی تھی۔ اوروہی حالات آج عوام کی ہے کہ جنہیں نہ جاگتے ہوئے چین ہے اورنہ ہی سوتے ہوئے؟ مہنگائی، بے روزگاری، مفلسی، دہشت گردی، لوڈ شیڈنگ اوراس جیسے کتنی ہی عفریت ہیں جن میں کسی قسم کی پیوند کاری کرنے سے یہ درست نہیں ہونگے بلکہ اس میں کوئی انقلابی جھٹکا ہی اسے بہتر بنا سکتا ہے۔

نظام کی درستی کرکے، عوامی جمہوری انقلاب کرکے اور جمہوریت منظم کرکے ہی کوئی تبدیلی ممکن ہو سکتی ہے،اس کے بغیر شایدان عفریتوں سے چھٹکارا ممکن نہیں۔ ہم آج پھر اپنی آزادی کی سالگرہ منا چکے اور ہر سال کی طرح امسال بھی روایتی پیغامات جاری کئے گئے ہیں اور” یومِ آزادی ” کی تقریبات میں وہی باتیں دہرائی گئیں ہیں جوہم پینسٹھ سالوں سے کرتے چلے آرہے ہیں اس میں کچھ نیانہیں تھا، ہمیں احتساب کی عادت آج تک نہیں پڑی حالانکہ احتساب کے لئے کوئی دن مخصوص نہیں ہوتا وہ تو روزانہ کرنے کا کام ہے۔

Government

Government

” جس میں نہ ہواحتساب ، موت ہے وہ زندگی ”ویسے بھی حکمرانوں میں کوئی فرق نظر نہیں آ رہایعنی کے پہلے اور اب میں ،سب کے سب بے حسی اور بے ضمیری کے قومی دھارے میں شامل ہیں توترقی کیسے ہوگی؟ ملک کی آدھی آبادی یقینا اب بھی ازحدغربت کا شکار ہیں، خطِ افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، وہ دن کب آئے گاجب اس ملک کے غریبوں کی تقدیر بدلنے والے آئیں گے؟ترقی کے لئے ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو پاکستان کے عوام کے دل کی دھڑکنوں سے واقف ہوں اور پھر ان پرشک کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور مسلسل کمزورہوتی ہوئی معیشت کے درمیان بھی ارباب نے اپنے آپ کو خوش کرنے کا موقع ڈھونڈ لیا ہے۔ غریبوں کا پیٹ بھرنے کی ضمانت آج بھی نہیں ہے۔” یہ تو خدا ہی ہے جوسب کو بھوکا اٹھاتا ضرور ہے

مگر بھوکا سُلاتا نہیں ہے۔”

سرمایہ دارانہ، وڈیرانہ، جاگیردارانہ نظام میں پارلیمانی ابہامات وغلط بیانیاں پھیلا کر پارلیمانی شہزادے راج کررہے ہیں، خواہ ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو ۔دبے اور کچلے ہوئے طبقے اور عوام کو پارلیمانی ابہامات میں پھنساکر وہ دادِ عیش لے رہے ہیں۔ اس لئے عوام کواپنی حالت بہتر بنانے کے لئے اور اس سے باہر نکلنے کے لئے عوامی اور جمہوری جد و جہد کے ذریعہ عوامی جمہوری انقلاب کی ضرورت پڑسکتی ہے۔

وگرنہ تاویل مسائل سے پالیمانی شہزادے مفلوک الحال اورغریب عوام کااسی طرح مذاق اڑاتے رہیں گے جس طرح غریبوں کی شرح فیصد کم کی جاتی رہی ہے۔ اور انہیں بعید ازعقل اظہارات پربھی کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ ان تمام حقائق سے واضح ہوتا ہے کہ شہزادوں کے سامنے یہ غریب عوام کامذاق اسی طرح اڑایا جاتا رہے گا اور انہیں قناعت کی تلقین کی جاتی رہے گی۔

تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی