تحفظِ بنیاد اسلام بل کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

Pervez Elahi

Pervez Elahi

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) عوامی حلقوں کی طرف سے سخت تحفظات سامنے آنے کے بعد پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت صوبائی اسمبلی میں منظور شدہ بل کی نظر ثانی کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔

پنجاب اسمبلی سے اس بل کو پاس ہوئے تین ہفتے ہونے کو آئے ہیں۔ لیکن گورنر پنجاب چوہدری غلام سرور اس پر بل پر دستخط کرنے سے انکار کر چکے ہیں۔ قوی امکان ہے کہ وہ اس بل کو نظر ثانی اور ترامیم کے لیے واپس پنجاب اسمبلی کو بھیج دیں گے۔

پنجاب اسمبلی میں اس متنازعہ قانون کے روحِ رواں اسپیکر پرویز الہیٰ تھے جن کا خیال ہے کہ اس قسم کا قانون ”دین اسلام کی حفاظت اور سر بلندی کے لیے ضروری ہے‘‘۔

اس بل میں کیا ہے؟

مجوزہ قانون کے تحت صوبے میں ایسی کتابوں کی اشاعت، فروخت اور برآمد پر پابندی ہوگی جن میں ‘اللہ، پیغمبرِ اسلام، دیگر مذاہب کے انبیا، مقدس کتب، خلفائے راشدین، صحابہ کرام، فرشتوں، اہلِ بیت کے حوالے سے کوئی گستاخانہ، تنقید یا ان کی عزت کم کرنے کا مواد شامل ہوگا۔’

قانون کے مطابق کتابوں میں ‘جہاں بھی اسلام کے آخری پیغمبر کا نام لکھا جائے گا، اس سے پہلے خاتم النبیین اور اس کے بعد عربی رسم الخط میں صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم لکھنا لازم ہو گا۔‘

اسی طرح دیگر انبیا، صحابہ، خلفا راشدین، امہات المومنین اور دیگر مقدس ہستیوں کے نام کے ساتھ بھی اسلامی تعریفی القابات لکھنا لازمی ہوگا۔

مذہب کی آڑ میں سیاست

مبصرین کے مطابق مجوزہ بل کا تعلق پنجاب کی سیاست سے ہے، جس میں چوہدری پرویز الہیٰ اب ‘ختم نبوت‘کے نعرے کے چیمپئن کے طور پر ابھرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

لاہور کے تجزیہ کاروں کے مطابق وزیراعظم عمران خان پر ایک عرصہ سے دباؤ ہے کہ وہ وزیراعلی عثمان بزدار کو تبدیل کریں لیکن وہ اس سے انکاری رہے ہیں۔ چودہری پرویز الہیٰ اس عہدے کے لیے لابنگ کر رہے اور اس کے لیے ان کو بعض عسکری حلقوں کی بھی حوصلہ افرائی حاصل ہے۔ مبصرین کے نزدیک صوبے کے بنیادی مسائل کو بالائے طاق رکھ کر ختم نبوت کے معاملے پر سیاست کرنا ان کی اسی مہم کا حصہ ہے۔

لیکن ملک میں ایک مخصوص مذہبی سوچ کے حامل حلقے کے مطابق اس طرح کے قوانین لاگو کرکے اسلامی تاریخ کی اہم شخصیات کا احترام یقینی بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

پاکستانی ذرائع ابلاغ میں اس سوچ کا پرچار کرنے والے مبصر اوریا مقبول جان کے مطاب تحفظِ بنیادِ اسلام بل قومی تشخص کا ایک اہم معاملہ ہے، جسے مغرب نواز سیکولر اور لبرل لابی نے متنازعہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔

فرقہ واریت کا زہر

حقیقت یہ ہے کہ اس بل پر بڑا اعتراض اس کی عجلت میں منظوری کے بعد خود اراکین پنجاب اسمبلی کی طرف سے سامنے آیا۔ حکمراں تحریک انصاف، اپوزیشن پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کے منتخب ارکان نے الزام لگایا کہ اس بل کی تفصیلات کے بارے میں انہیں اندھیرے میں رکھا گیا اور اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔

ساتھ ہی مختلف مکاتب فکر کے علماء نے بھی اعتراض اٹھا چکے ہیں کہ اس قسم کی قانون سازی سے ملک میں فرقہ وارانہ نفرت کا زہر مزید پھیلے گا۔ علماء کرام نے گورنر، وزیراعلیٰ اور اسپیکر سے مطالبہ کیا ہے کہ عقیدے سے متعلق معاملات پر اتفاق رائے کے بغیر کوئی نیا اقدام نہ اٹھایا جائے۔

خلاف آئین قانون

منتخب اراکین اور علمائے کرام کے ساتھ پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے بھی اس مجوزہ قانون کو ”سیاسی مقاصد کے لیے ایک نیا شوشہ اور ملک کے اصل مسائل سے توجہ ہٹانےکی کوشش‘‘ قرار دیا ہے۔

پاکستان میں ہیومن راٹس کمیشن آف پاکستان کے سینئر عہدیدار آئی اے رحمٰن کے مطابق ملک میں اس وقت اس قسم کے قانون کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ بدھ کو اس معاملے پر زوم پر ایک مباحثے میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ریاست کو مذہب کے حوالے سے زور زبردستی کرنے کا اختیار نہیں اور جبر اسلام کی رُوح کے خلاف ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی صوبائی اسمبلی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ آئین کے خلاف کوئی قانون بنائے۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون کے تحت پنجاب میں ایسی کتابوں پر پابندی لگائی جائے گی اور انہیں ضبط کرلیا جائے گا جو حکومت کے ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز کی نظر میں قابل اعتراض ہوں۔

ڈی جی پی آر ‘سینسر اعظم‘؟

آئی اے رحمن نے مزید کہا کہ بطور ایک سرکاری ملازم ڈی جی پی آر کا کام حکومت کی تشہیر کرانا ہوتا ہے، ان میں ایسی صلاحیت اور قابلیت نہیں ہوتی کہ انہیں پورے صوبے کا ”سینسرِ اعظم‘‘ مقرر کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک ہی ملک کے باقی علاقوں میں کتابیں شائع ہو رہی ہوں اور پڑھی جا رہی ہوں لیکن پنجاب میں ان پر ممانعت ہو۔

پاکستان میں فولیو بُکس کے پبلیشر بلال ظہور کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ویسے ہی دوسرے ملکوں کے مقابلے میں کتابیں کم شائع ہوتی ہیں اور مذہب کی آڑ میں سینسرشپ لگانے سے اس کاروبار کو مزید نقصان ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں سالانہ کوئی ساڑھے تین سے چار ہزار کتابیں شائع ہوتی ہیں اور عموماً ان کی پانچ سو سے ایک ہزار تک کاپیاں بک اسٹالز پر مہیا کیا جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کتابوں کا اثر و رسوخ ویسے ہی انتہائی محدود ہے اس لیے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ کچھ کتابیں کیسے اسلام کی بنیادوں کو ہلا سکتی ہیں۔