باغی کی بغاوت کیوں؟

National Assembly

National Assembly

5 جون کو قومی اسمبلی کا اجلاس بڑے زور و شور سے جاری تھا ۔ نومنتخب سپیکر ایاز صادق اجلاس کی صدارت کررہے تھے۔ اسمبلی میں ہر طرف گہما گہمی تھی کیونکہ آج وزیراعظم کا انتخاب ہونا تھا۔ وزارت عظمیٰ کے اس دنگل میں تین پہلوان موجود تھے جن میں پیپلز پارٹی کے مخدوم امین فہیم (جو پچھلی بار اکثریت کے ہوتے ہوئے نامزد نہ ہو سکے )، سونامی خان کے جاوید ہاشمی اورمسلم لیگ ن کے نواز شریف۔ الیکشن کے نتائج کا تو سب کو پہلے سے ہی معلوم تھا کیونکہ نواز شریف قومی اسمبلی میں واضح اکثریت لیے ہوئے تھے اور آج وہ تیسری بار وزیراعظم پاکستان منتخب ہو کر نئی تاریخ رقم کرنے جا رہے تھے۔ اجلاس میں باقاعدہ الیکشن ہوا اور پھر ان ووٹرز کی گنتی کی گئی اور اس کے بعد سپیکر نے نتائج کا اعلان کیا۔

مخدوم امین فہم نے 42 ، جاوید ہاشمی نے 31 اورمیاں نوا ز شریف نے 244 ووٹ حاصل کیے۔ اس طرح میاں نواز شریف دو تہائی اکثریت سے زائد ووٹ لیکر پاکستان کے ستائیسویں وزیراعظم منتخب ہو گئے۔ منتخب وزیراعظم کے اعلان کے بعد اسمبلی میں سب سے پہلے دعوت خطاب کے لیے نواز شریف کو مدعو کیا۔ جس میں انہوں نے کہا ، پاکستان میں ڈرون حملے بند ہونے چاہئیں، لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کرنا اولین ترجیح ہے۔ تمام پارٹیوں کو ساتھ لیکر چلوں گا اور قوم کی تقدیر بدلنے تک آرام سے نہیں بیٹھوں گا، اس کے بعدجب تحریک انصاف کے صدر جاوید ہاشمی کو دعوت خطاب دی تو انہوں نے اپنے خطاب میں کہا، ملکی مسائل کے حل کے لیے حکومت کا ساتھ دینگے۔

نواز شریف کل بھی میرے لیڈر تھے اور آج بھی ہیں، جاوید ہاشمی کے ان الفاظ نے تحریک انصاف کی در و دیوار ایسے ہلادی جیسے سونامی نے پانی کی لہروں کو۔ یہ تو ہی اللہ بہتر جانتا ہے کہ ہاشمی صاحب کے دل میں نواز شریف کے بارے میں کیا ہے؟ ہو سکتا ہے کہ ان کا یہ بیان ان کے دل کی آواز ہو یا پھر وہ اپنی غلطی جو ناچاہتے ہوئے کر گئے(تحریک انصاف میں شمولیت) اس کا ازالہ کرنے کے لیے ایک ایسا بیان دیا ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے ک سونامی کے کپتان کو کچھ کھلا اور کچھ چھپا ہوا پیغام دیا گیا تھا۔ تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر کے اس پارٹی میں جان ڈالنے والے جاوید ہاشمی
کا سیاسی قد کاٹھ پورے ملک میں مشہور ہے لیکن چندہی روزپہلے جب میاں نوازشریف وزیراعظم منتخب ہوئے تو ن لیگ سے طویل رفاقت رکھنے والے جاوید ہاشمی کے دل میں چھپی بات تھی یا کچھ اور منھ سے ایسے الفاظ نکلے جس پر پوری تحریک انصاف ہی پریشان ہو گئی۔

PTI

PTI

ہاشمی کے اس بیان کے بعد ایک طرف تحریک انصاف کے رہنما پریشان ہونے کے ساتھ ساتھ فکرمند بھی ہیں تو دوسری طرف ن لیگ والے اس بیان کا غلط مطلب بھی لے رہے ہیں۔ جہاں ہاشمی صاحب کو اپنے چیئرمین کے دربار خاص میں حاضری دیکر وضاحتیں دینا پڑ رہی ہیں تودوسری طرف خواجہ آصف سمیت دوسرے لیگی بھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ باغی صاحب شایدپھر ن لیگ میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پارٹی کے صدر کی حیثیت سے جاوید ہاشمی کے بیان نے ن لیگ کے کارکنوں کو بولنے کا موقع دے دیا ہے اور دوسری طرف تحریک انصاف جس نے پورا الیکشن نواز شریف کے مخالفت میں لڑا ان کو بھی شرمند ہ کردیا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر جاوید ہاشمی کے لیڈر نواز شریف ہیں تو پھر وہ کونسی چیز یا پریشر تھا جس نے انہیں ن لیگ چھوڑنے پر مجبور کیا ؟ اگر ان کے ن لیگ کے کسی ساتھی سے یا پارٹی پالیسیوں سے اختلاف تھے تو پھر اتنی سی بات پر پارٹی نہیں چھوڑی جاتی بلکہ اپنے قائد کو بتا کر اس کا حل تلاش کیا جاتا ۔اور اگر ان کے اختلاف پارٹی قائد سے تھے تو پھر ان کا یہ بیان کچھ اور سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے جس وقت جاوید ہاشمی نے تحریک انصاف جوائن کی اس وقت پاکستان کی سیاست میں تحریک انصاف کی پرواز کافی اونچی تھی۔ اور اس کی چمک دیکھ کر ہاشمی صاحب بھی تحریک انصاف جوائن کرنے پر مجبور ہوگئے مگر ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی۔

البتہ اس بیان نے عمران خان کی عزت کی دھجییاں اڑا دی۔ کسی بھی پارٹی کا صدر خود دوسرے لوگوں کے لیے لیڈر ہوتا ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کا صدر دوسری پارٹی کے صدر کو اپنا لیڈر مان رہا ہے۔ ان اس بیان کے بعد تحریک انصاف ،ن لیگ کے لوگوں کے سامنے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ اگر ہاشمی صاحب کے لیڈر نواز شریف ہیں تو انہوں نے یہ بات الیکشن مہم کے دوران کیوں نہیں کہی اور اب وزیراعظم بننے کے بعد ہی کیوں ضرور ت پیش آئی ایسا بیان دینے کی۔ فیصلہ اب عوام خود کریں گے۔ جاوید ہاشمی نے نواز شریف کو اب اپنا لیڈر کہہ کر تحریک انصاف میں اپنے لیے زمین بھی کسی حد تنگ کر لی ہے۔ پارٹی صدرہونے کے باوجود وہ اسمبلی میں تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر بنائے گئے ہیں نہ ہی ڈپٹی پارلیمانی لیڈر۔ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔

Javeed Hashmi

Javeed Hashmi

دیکھنا یہ ہے تحریک انصاف نے تو اس کو پارلیمانی لیڈر نہیں بنایا اب کیا جاوید ہاشمی ادھر بھی بغاوت کریں گے۔ بہرحال ہاشمی صاحب نے جو بھی بیان دیا یا جو بھی اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ ان کے برعکس ابھی تک تو یہ حالات ہیں کہ میں صرف اتنا ہی کہ
سکتا ہوں کہ نہ خداہی ملانہ وصال صنم۔
اب بے شک کسی کے دباؤ میں آکر جاوید ہاشمی نے اپنابیان واپس لے لیا مگر انہوںنے حقیقت اپنی زبان سے بیان کردی۔

جاوید ہاشمی ایک مدبر سیاستدان ہیں اور انہوں نے ہمیشہ صاف ستھری سیاست کی ہے مگر انہوں نے ن لیگ چھوڑ کر تحریک انصاف جوائن کر کے اپنے کردار پر دھبہ لگا لیا ہے۔ مجھے یاد ہے جس وقت ہاشمی صاحب پی ٹی آئی جوائن کرنے کے لیے کراچی جا رہے تھے تو ان کے حلقے کی عوام ان کی گاڑی کے سامنے لیٹ گئے تھے مگر انہوں نے ان کی ایک نہ مانی اور اب یہ بیان دیکر انہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ اصل میں مسلم لیگی ہیں مگر ان کے بیان کے بعد تحریک انصاف میں ان پر شک کی نظر ضرور رہے گی۔

Aqeel khan

Aqeel khan

تحریر : عقیل خان