چودہ اگست کے بعد کیا ہو گا؟

Pakistani

Pakistani

دنیا کی اقوام تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہی ہیں زمین کے مدار سے اگے نکل رہی ہیں نئی دنیا بسانے کی سوچ رہی ہیں مگر ہم پاکستانی ابھی تک یہ سمجھ نہیں سکے کہ ہمارا اصل دشمن کون ہے اور ہمیں کسی راستے کی طرف جانا ہے ہم کیسے ترقی کے راستے پر گامزن ہو سکتے ہیں آجکل ملک میں ہر طرف آزادی مارچ کا چرچہ ہے کچھ جوشیلے نوجوان حکومت گرانے کے چکر میں ہیں کچھ نوازشریف اور چالیس چوروں کو عبرت ناک سزا دینے کے چکر میں اور کچھ ووٹنگ سسٹم کو درست کروانا چاہتے ہیں مگر یہ عمران خان کے سوا کسی پر بھی واضح نہیں ہے۔

کہ 14 اگست کو کیا ہو گا ؟ تبدیلی کانام لیوا پارٹی نے بھی اپنے کارکنوں کے ساتھ وہی روایتی سلوک روا رکھا ہے جو باقی پاکستانی سیاسی پارٹیوں کا اس قوم کے ساتھ رہا ہے پہلے تو یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ اگر چودہ اگست کو حکومت کا تختہ الٹ جاتا ہے تو پھر کیا ہو گا سب سے پہلے مارشل لاء کا خیال آتا ہے تو جناب پاکستان کے مارشل لاء کی تاریخ ایسی ہے کہ جس کو بھی حکومت مل جاتی ہے وہ کرسی سے چمٹ جاتا ہے اور بھائی سارا کھیل ہی کرسی کا ہے جس کو مل جائے وہ کب اپنی مرضی سے چھوڑتا ہے یحییٰ، ایوب، ضیاءالحق، پرویز مشرف سب کا دور حکومت پاکستانی کی جمہوری تاریخ سے بڑا ہے۔

جب آئے تھے تو سارئے ہی تین ماہ یا 90دن کے اندر نئے انتخابات کا وعدہ کر کے آئے تھے تاریخ سے یہ بات تو صاف ظاہر ہے کہ مارشل لاء اگر لگ جائے تو پھر وہ اپنے مقاصد پورے کر کےہی جاتا ہے انھیں کسی سیاسی پارٹی سے کوئی سروکار نہیں رہتا اور آجکل تو فوج ویسے بھی خان صاحب سے خفاء ہے کہ جب ہم اپنے اندرونی دشمن سے حالت جنگ میں ہیں ملکی حالات پہلے سے اتنے خراب ہیں تو آپ کو یہ پسوڑی ڈالنے کی کیا ضرورت تھی خیر یہ تحریک انصاف کے منشور کے خلاف بھی ہے کہ وہ کسی جمہوری حکومت کے بجائے مارشل لاء کی حمایت کریں اور عمران خان صاحب ایسا کریں گے بھی نہیں پھر دوسرا آپشن یہ رہ جاتا ہے۔

عدلیہ اپنا کردار ادا کرے اور اور بنگلہ دیش ماڈل کی حکومت بن جائے تو اس پر تحریک انصاف راضی نہیں ہو گی کیونکہ کہ عمران خان صاحب اکثر عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ مج مجی دی بہین ہوندی ہے (ایک بھینس دوسری کی بہن ہوتی ہے)اسلئے یہ طریقہ کار بھی تحریک انصاف کو پسند نہیں تو پھر تحریک انصاف کرنا کیا چاہتی ہے؟ جو پورے پاکستان سے اتنا بڑا لشکر لے کر آرہی ہے اسلام آباد۔ کیا پارلیمنٹ یا اہم عمارات پر قبضہ کا ارادہ ہے؟ کیا صدر اور وزیراعظم کو یرغمال بنا کے اپنے مطالبات پورے کروایں گے نہیں نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہونے والے جو لوگ یہ سوچ رہے ہیں۔

PTI

PTI

وہ احمقوں کی جنت میں رہے رہے ہیں عمران خان صاحب آئیں گے اپنے کچھ مطالبات منوائیں گے اور پھر واپسی یہی حکومت رہے گی پانچ سال میاں صاحب اپنا کام کریں گے اور خان صاحب بھی اپناکام کریں گے تحریک انصاف کا پہلا دھرنا بھی جلسے میں تبدیل ہو گیا تھا ذرائع کے مطابق یہ بھی ایک جلسہ ہی ہوگا اس موقع پرایک لطیفہ یاد آ رہا ہے کہ ایک شخص انتہائی سادہ طبعیت کا تھا ایک دن وہ کسی درخت پر چڑھ گیا اور درخت کی اس شاخ کو کاٹنا شروع کردیا جس پر خود بیٹھا ہوا تھا توپاس سے کوئی سیانا گزار تو اس نے کہا اوے بیوقوف جب یہ شاخ کٹ جائے گی تو خود بھی گر جائے گا تو درخت پر چڑھے ہوئے شخص نے کہا کیا تو خدا ہے۔

جو تمہیں پتہ ہے کہ میں گر جاوں گا جا اپنا کام کر وہ نبدہ جسے نے مشورہ دیا تھا تو اپنے راستے پر چل دیا تھوڑی دیر میں وہ بیوقوف پیچھے سے دوڑتا ہوا آیا اور اس داناء سے پوچھنے لگا کہ بابا جی آپ برے پہنچے ہوئے آپ کو پتہ تھا کہ میں درخت سے گر جاوں گا آپ کو یہ بھی پتہ ہوگا کہ میں نے مرنا کب ہے عقل مند انسان نے کافی کہا کہ میں نہیں جانتا مگر بیوقوف بضد رہا آخر کار عقل مند نے اپنی جانے چھڑانے کے لئے کہہ دیا جب تمہارے منہ سے خون آئے گا تم مر جاو گئے بیوقوف آدامی کھڈی پر کام کرتا تھا ایک دن سرخ دھاگہ نگل رہا تھا اس کے دوسرے ساتھی نے کہا کہ تمہارے منہ سے خون آرہا ہے۔

تو بیوقوف نے چیخ و پکار شروع کر دی کہ میں مر گیا ہوں مجھے دفنا دوسب نے بہت سمجھایا کہ تم ابھی زندہ ہو مگر اس نے کسی کی ایک نہ مانی سب نے اسے غسل وغیرہ دیا کفن پہنایا اور قبرستان لے گے ادھر کسی نے قریبی تھانے کو اطلاع کردی کہ جناب گاوں والے ایک زندہ شخص کو دفنانے جا رہے ہیں پولیس فورا وہاں پہنچی جنازے میں شریک سب لوگوں کو بھاگا دیا اور اس کے بعد اس بیوقوف کو ادھر ہی کان پکڑیا کے دوچار لتر پھیرے اور اسے کہا قبرستان میں جتنا کچرا پڑا ہوا ہے۔

Imran khan

Imran khan

سارا میونسپلٹی کے کچرادان میں پھینک کے گھر دفعہ ہو جا کچھ عرصے بعد بیوقوف کا گزر مسجد کے پاس سے ہوا تو اس نے سنا کہ مولوی صاحب یوم حساب اور قبر کی سختیاں بتا رہے تھے تو اس نے کہا اے لوگو یہ مولوی جھوٹ بولتے ہیں ادھر تو کچھ بھی نہیں ہوتا ایک دو فرشتے آتے ہیں پولیس کی وردی میں چار پانچ چھتر پھیرتے ہیں پھر قبرستان صاف کرواتے ہیں اور کہتے ہیں چل دفعہ ہو جاو گھر ہونا اس بار بھی یہی ہے مطالبات کی منظوری اور کچھ دلال اپنا کردار ادا کریں گے اور خان صاحب اپنے ووٹروں سے کہیں گے کے چلوشاباش دوڑ جاو اپنے اپنے گھر ابھی انقلاب پک رہا ہے۔

تحریر: جہازیب منہاس