ساماں ہے سو برس کا پل کی خبر نہیں

Prophet Adam AS

Prophet Adam AS

انسان غلطی کا پتلا ہے۔ زندگی کے پر پیچ راستوں پر سفر کرتے ہوئے وہ کبھی کبھار دانستہ یا نادانستہ طور پر بھٹک جاتا ہیلیکن عظیم ہے وہ انسان جو بھٹکنے کے بعد راہ راست پر آجائے۔ جو غلطی کرنے کے بعد پچھتائے اور گناہ کے بعد توبہ کر لے۔ غلطی کرنا انسان کی فطرت ہے حضرت آدم نے شیطان کے بہکاوے میں آکر شجر ممنوعہ کا پھل کھایا اور جنت سے نکال دیئے گئے۔ مگر انہوں نے ان الفاظ میں توبہ کی ” ائے رب ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم تو ہم کھاٹا پانے والوں سے ہو جائیں گے” القرآن
اللہ تعالیٰ نے انکی توبہ قبول کی۔

توبہ اور مغفرت کی طلب مسلمانوں بلکہ تمام انسانوں کے لیے خالق حقیقی کا مثل تحفہ ہے۔ توبہ کی مثال دھوبی کی سی ہے۔ ہم کپڑے گندے کر دیتے ہیں۔ دھوبی انہیں صف کر دیتا ہے ہم دوبارہ گندے کر دیتے ہیں وہ دوبارہ صف کر دیتا ہے ۔ سو دھونے دھرانے کا یہ عمل سو بار بھی دہرایا جا سکتا ہے۔ البتہ بار بار کپڑے دھلنے سے ان کی آب و تاب میں کمی آجاتی ہے۔

اس لیئے توبہ کے ذریعے گناہوں کی سیاہی صاف کرنے کے بعد توبہ پر ثابت قدمی سے ڈٹے رہنا چاہیے۔ اس نیت سے گناہ کرنا کہ بعد میں توبہ کر لیں گے کسی طرح بھی درست نہیں ۔ توبہ کرنے سے انسان کے باطنی حسن میں اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن بار بار گناہ کا ارتکاب کیا جائے اور توبہ نہ کی جائے تو دل زنگ آلودہ اور ضمیر مردہ ہو جاتا ہے اور بالاآخر گناہ کرنے پر احساس ندامت ختم ہوجاتا ہے۔

Communities

Communities

آج کل ہمارے معاشرے میں جو افرا تفری پائی جاتی ہے اسکی وجہ سے ہمارے زنگ آلودہ اور احساس سے عاری ضمیر ہیں جو گناہ کر کے پشیمان نہیں ہوتی۔ اگر آج ہم صرف انفرادی طور پر ہی توبہ کر لیںاپنے گناہوں کی سیاہی کو ندامت کے آنسوئوں سے دھو لیں۔ تو ہمارا معاشرہ جراثیم سے پا ک ہو کر امن و سکون کا گہوارہ بن جائے۔ مگر اب ہمارے معاشرے میں ہماری نئی نسل کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے۔

جب خدا سے توبہ کرنے اور اس سے مغفرت مانگنے کی بات کی جاتی ہے تو وہ ہمیں جلدی سے یہ جواب دیتے ہیں کہ ابھی توبہ کرنے ے لیئے کافی عمر پڑی ہے مگر شاہد کہ انہیں پتہ نہیں کہ انکا جو آج ہے وہ کل آئے گا یاکہ نہیں۔
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں سو برس کاپل کی خبر نہیں توبہ کرنا نبیوں اور پیغمبروںکا شیوہ تھا وہ تو ہر وقت توبہ کرتے تھے۔ اگر کوئی شخص گناہ کبیرا کا بھی مرتکب ہو مگر اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے توبہ کر لے تو خدا اس کے تمام گناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔

ایک دفعہ ایک کافر حضور ۖ کی خدمت اقدس میں حاضڑ ہوااور حضورپاک ۖ سے کہا کہ میںنے بہت سی بچیوںکو زندہ دفن کر دیا ہے اور بھی میں نے بہت سارے گناہ کر رکھے ہیں کیا میرے گناہ معاف ہو سکتے ہیں۔ تو حضور ۖ نے فرمایا کہ ہاں اگر سچے دل سے اللہ تعالیٰ سے توبہ کر لو اورآئندہ تمام گناہوں سے بچنے کا وعدہ کر لو تو اللہ تعالیٰ تجھے معاف فرما دے گا۔ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ توبہ سچے دل سے کی جائے تو اللہ تعالیٰ ضرور معاف کرے گا۔

تم اپنی مغفرت مانگو پھر تم اسکی طرف متوجہ رہو وہ تمہیں وقت مقررہ تک اچھے سامان سے فائدہ پہنچائے گا۔ مندرجہ با آیات سے یہ بات واضع ہوتی ہے کہ توبہ کرنے سے نہ صرف آخروی نعمت یعنی مغفرت حاصل ہوتی ہے بلکہ دنیا میں بھی آرام ، راحت، اطمینان، اور خوشحالی میسر آتی ہے۔ اگر توبہ ٹوٹ جائیتو دوبارہ مصمم ارادے کے ساتھ رب غفور سے مغفرت طلب کی جائے وہ ضرور قبول کرے گا۔

عظیم صوفی شاعر ابوسعید ابوالخیر نے کیا خوب فرمایا ہے۔ باز آباز آ ہرانچہ ہستی بازآ گر کافر و کبر و برپرستی باز آایں درگہ مادرنومیدی نیست ۔۔۔۔۔۔۔ صد بار اگر توبہ شکستی باز آترجمہ : واپس آجا تو جو کوئی بھی ہے واپس آجا اگر کافر، آتش پرست اور مشرک ہے تب بھی واپس آجا۔ ہماری یہ درگاہ مایوسی کی درگاہ نہیں ۔ اگر تو سو بار بھی توبہ توڑ چکا ہے تو پھر بھی واپس آجا۔

Faaiza Mubarak

Faaiza Mubarak

تحریر: فائزہ مبارک شمسی
ای میل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔faaizamubarakshamsi@gmail.com