سندھ، راشن تقسیم کا معاملہ اسکینڈل بن گیا

Pakistan Coronavirus

Pakistan Coronavirus

سندھ (اصل میڈیا ڈیسک) لاک ڈاون کے بعد سندھ حکومت کی جانب سے مستحقین میں راشن کی تقسیم کا معاملہ سیاست کی نظر ہو چکا ہے۔ حکام نے ضلعی انتظامیہ کے ذریعے راشن کی تقسیم کو ترجیح دی، جس کا نتیجہ آٹھ ارب روپے کرپشن کے الزام کی صورت میں برآمد ہوا۔

22 اپریل کو لاک ڈاون کے اعلان کے ساتھ ہی وزیر اعلٰی مراد علی شاہ نے مستحق افراد کو گھر گھر راشن پہنچانے کے لیے ساڑھے تین ارب روپے مختص کیے مگر اس حوالے سے فوری طور پر کوئی حکمت علی وضع نہ کی جا سکی۔ پہلے واٹس ایپ نمبرز کے ذریعے اس تقسیم کو ممکن بنانے کی تجویز دی گئی تھی لیکن پھر تین وزرا پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی اور آخر میں بات ضلعی انتظامیہ کے ذریعے تقسیم پر آکر رکی۔

29 اضلاع پر مشتمل صوبہ سندھ کے ہر ضلعی ڈپٹی کمشنر کو 2 کروڑ روپے راشن کی خریداری کے لیے فراہم بھی کیے گئے لیکن راشن کی تقسیم ممکن نہ ہوسکی اور مخالفین نے سوشل میڈیا پر راشن کے مد میں سندھ حکومت پر آٹھ ارب روپے کرپشن کا الزام اتنا مضبوط کردیا کہ سپریم کورٹ میں بھی اس کی بازگشت سنی گئی۔ یوں وزیراعلٰی سندھ مراد علی شاہ کو وضاحت دینا پڑی کہ 20 لاکھ میں سے صرف ڈھائی لاکھ راشن بیگ تقسیم کیے گئے ہیں۔

کراچی کے ضلع شرقی میں تعینات ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر عمران میروانی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ سندھ حکومت نے راشن کی تقسیم کے لیے ہر یونین کونسل کی سطح پر ایک کمیٹی تشکیل دی ہے، جس میں یونین کونسل چیئرمین، زکواۃ کمیٹی کا چیئرمین، خاتون کونسلر اور این جی او کا ایک نمائندہ شامل کیا گیا اور تقسیم کے لیے راشن بیگ اسی کمیٹی کو فراہم کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیلوری ویب سروس کے ذریعے بھی راش کی تقسیم رات کے اوقات میں کی جاتی ہے۔

لیکن ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے ضلع وسطی کراچی کے چیئرمین ڈسٹرکٹ کارپوریشن ریحان ہاشمی کہتے ہیں کہ ہر یونین کونسل کے فنڈ سے دو لاکھ روپے کاٹے گئے ہیں اور بدلے میں اسے 20 سے 30 راشن بیگ فراہم کیے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اندرون سندھ ایک یونین کونسل کی آبادی پانچ ہزار ہے تو کراچی میں یہی آبادی 50 ہزار ہے تو اگر فنڈز سے 2 لاکھ روپے کاٹنے ہی تھے تو راشن بیگ کی تقسیم منصفانہ طور پر کی جاتی۔

تحریک انصاف کراچی کے صدر خرم شیر زمان سندھ حکومت کو مسلسل لفظی گولہ باری کا نشانہ بنانے میں مصروف ہیں۔ ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے خرم شیر زمان نے کہا، ”سندھ حکومت کو سوائے کرپشن کے کوئی کام آتا نہیں، وزیر اعلٰی مراد علی شاہ نے عوام سے راشن فراہمی کا وعدہ تو کیا مگر ان کا دعوی ہے کہ راشن تو تحریک انصاف پہنچا رہی ہے اس لیے پیپلز پارٹی کو پریشانی ہو رہی ہے۔‘‘

بوٹ بوائے کے نام سے مشہور تحریک انصاف کے وفاقی وزیر فیصل واوڈا بھی کئی ماہ کی خاموشی کے بعد سندھ حکومت کو ہدف تنقید بنانے کے لیے میڈیا ہر آئے اور وفاقی وزیر علی زیدی نے بھی ان کا کا بھرپور ساتھ دیا۔

تحریک انصاف کے علاوہ دیگر جماعتیں بھی راشن تقسیم کے معاملے پر سندھ حکومت کی کارکردگی سے ناخوش ہیں۔ جماعت اسلامی کے رفاحی ادارے الخدمت کے رضا کار صرف کراچی میں ایک لاکھ سے زائد راشن بیگ گھر گھر پہنچا چکے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم کہتے ہیں کہ سندھ حکومت نے کورونا وبا کی روک تھام کے لیے جو اقدامات کیے اس کی سب نے تعریف کی۔ سراج الحق نے بلاول بھٹو کو ٹیلی فون کر کے مکمل تعاون کی یقین دھانی کرائی۔

حافظ نعیم کہتے ہیں، ”ابتدا میں سندھ حکومت کی کارکردگی اچھی تھی تو سب نے اس کی تعریف کی لیکن اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ تمام چیزوں کو ریورس گیئر لگ گیا ہے، ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ سندھ حکومت معاملے کو سنبھال نہیں پا رہی، ابتدا میں شہریوں کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے راشن کی بجائے نقد رقم فراہم کرنے کی بات ہوئی تھی، ہم سمیت ساری این جی اوز سے ڈیٹا لیا گیا، ایپ بنا کر رقم تقسیم ہونا تھی جو آج تک نہ ہو سکی پھر سب کو ملا کر راشن کی تقسیم کا معاملہ شروع ہوا، بدقسمتی سے اس میں معاملے میں پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔‘‘

تجزیہ کاروں کے مطابق سندھ حکومت کو راشن کی تقسیم کے معاملے میں ایم کیو ایم کو دور رکھنے کا نقصان ہوا ہے۔ کراچی اور حیدر آباد کے علاوہ اکثریتی بلدیاتی نمائندے پیپلز پارٹی کے ہیں۔ مراد علی شاہ نے ابتدا میں تمام رفاحی اداروں کے ساتھ مشترکہ حکمت عملی بنانے کی جو کوشش کی تھی شاید وہ پارٹی کے اندرونی دباؤ کے باعث کامیاب نہ ہو سکی۔ ضلعی انتظامیہ پر بھروسہ کرنا وزیر اعلٰی سندھ کو مہنگا پڑا ہے اور کورونا سے بچاؤ کے لیے موثر پیشگی اقدامات کے باوجود سندھ حکومت کی کارکردگی تنقید کی زد میں ہے۔