تو کون میں کون

Tu Kon Main Kon

Tu Kon Main Kon

تحریر : ممتاز ملک۔ پیرس

دیکھو مٹی میں نہیں کھیلنا، اسے منہ نہیں لگانا، یہ ہمارے سٹیٹس کا نہیں ہے، وہ ہمارے سٹینڈرڈ کا نہیں ہے، دوسرے کو اگنور کرنا، سیکھو،

اپنے لیول کے لوگوں سے تعلقات بڑھایا کرو، یہ چھوٹے لوگ ہیں ، بڑے لوگوں میں پی آر او بناو،

جی ہاں یہ ہی ہے ہمارے آج کی آدھی تیتر اور آدھی بٹیر ماوں کی اپنے بچوں کو دی ہوئی تربیت ۔

اور آج ہمارے معاشرے میں انسانیت کی جو تذلیل ہے ، خود غرضی کا جو طوفان ہے ،

یہ سب کچھ ہماری ماوں کی ناکام تربیت کا ہی منہ بولتا ثبوت ہے ۔ ماہرین نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ بچے کی تربیت اس کے پہلے پانچ سال میں ہی مکمل ہو جاتی ہے ۔

آج جب مائیں اپنے پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کو دینی اور اخلاقی سبق اور تربیت نہیں دے سکتیں تو انہوں نے حیوان ہی بننا ہے انسان نہیں ۔ جو آج ہمارے معاشرے میں دندناتے نظر آ رہے ہیں ۔ آج ہمارا بچہ ان پانچ سالوں میں نادان ماوں اور حکومتی سسٹم کی بھینٹ چڑھ کر بابا بلیک شیپ اور ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل سٹار کے رٹتے رٹتے ہی میں وہ سنہرا ترین وقت گنوا بیٹھتا ہے ۔ دنیا میں کسی ملک کے بچے پر یہ لسانی ظلم نہیں ہوتا جو ہمارے ہاں بچوں کو سہنا پڑتا ہے۔

پہلے مشترکہ خاندانی نظام کی وجہ سے بچہ کسی نہ کسی کی نظر میں رہتا تھا تو اسے سکھانا سمجھانا بھی کئی لوگوں کی ذمہ داری میں آ جاتا تھا ۔ گو کہ وہاں بھی کسی کے لاڈلے بننے اور کسی کو نشانے پر رکھ لینے والی ناانصافیوں کے سبب مشترکہ خاندانی نظام کا بھٹہ ہی بیٹھ گیا ۔ کیونکہ وہاں بھی ناانصافیوں کے سبب اور شریف النفس انسان کو قربانی کا دنبہ بنا لینے کی عادتوں کے طفیل اسی کے بچے سب سے زیادہ محرومیوں کا شکار کر دیئے جاتے تھے ۔ اس لیئے اپنے خاندان یعنی اپنے بیوی بچوں کی ذمہ داری ہر انسان کو خود ہی اپنے سر لینے کا فیصلہ کرنا پڑا ۔ جس کے سبب آج جب علیحدہ خاندان (سیپرٹ فیملی) کا رواج ہے ۔ اور مہنگائی اور نت نئی ایجادات کے سبب بچے پالنا ہاتھی پالنے کے برابر ہو چکا ہے ، تو عافیت اسی میں ہے کہ یہ ہاتھی جتنے کم ہوں اتنا ہی بہتر یے یعنی کہ بچوں کی تعداد کم ہی رکھیں تو ہی عافیت ہو سکتی ہے ، اور ہر بچے میں کم از کم 3 سال کا وقفہ ہی ہمیں ان کی تربیت کا بہترین وقت فراہم کر سکتا ہے ۔ ماں اور باپ دونوں بچے کے سامنے فساد اور طعنے تشنع سے بچیں ۔ گھر میں عورت کو گالم گلوچ اور مارپیٹ بچے کو یہ ہی کچھ کرنے پر اکساتی ہے ۔

اگر باپ ہی اپنے گھر میں اپنے ہی گھر کی عورت کی اور خصوصا اپنی بیوی اور اپنے بچے کی ماں کی ہی عزت اور حفاظت نہیں کریگا تو اس کی اولاد یہ عزت کا سبق کہاں سے جا کر سیکھے گی ؟

ماں گھر میں اور باپ باہر کے لیئے بچے کو تیار کرتا یے ۔ جیسے بیٹا کسی سے بدتمیزی نہیں کرنی ۔ بلا ضرورت اونچی آواز میں بات کرنا بد تہذیبی ہے ، گالی نہیں دینی ۔ لڑنا بری بات ہے ۔ سلام میں پہل کرو ۔ کسی سے کچھ لیکر نہیں کھانا ۔ ٹوہ میں رہنا بری بات یے ، کسی کے بھی گھر یا کمرے میں دستک دیئے بنا اور اجازت لیئے بنا داخل ہونا بری بات یے ، دروازے پر دستک دیکر دروازے کے اس رخ پر کھڑے ہو جس پر دروازہ کھلنے کی صورت میں فورا تمہاری نظر اس گھر کے اندر نہ جائے ، شریفانہ اور پسندیدہ عمل ہے ،

فضول باتوں سے کسی کا وقت برباد مت کرو، جو بات کرنی ہو پہلے اس کا مضمون اپنے ذہن میں بنا کر رکھو تاکہ کم وقت میں واضح بات سامنے والے سے کی جا سکے ۔

بغیر اجازت کسی کی کوئی چیز نہ اٹھانا، نہ استعمال کرنا ۔ کسی کو راستہ دینا ، ہاتھ سے چھو کر مذاق مت کرنا ، کلاس میں ایکدوسرے کی اچھی بات اور کام میں مدد کرنا، اپنے ساتھ نماز اور دیگر محافل میں لیکر جانا ، انہیں محفل کے آداب سکھانا ، کھانا کھانے کے آداب سکھانا ، کوئی لباس پہن کر اسے کیسے لیکر چلنا ہے ، ۔۔۔ایسی بہت سے باتیں۔

جبکہ دوسری جانب ایسی ماوں اور ان کے ہاتھوں پروان چڑھے لوگوں کی بھی کمی نہیں یے جو مذہبی حلیئے اور عبادت پر تکبر اور اپنے اوپر جنت کی واجبیت کے یقین پر ساری دنیا کو اپنے سامنے ہیچ سمجھتے ہیں اور وہ اسے ساری دنیا پر اپنا احسان گردانتے ہیں ۔ اپنی نمازوں روزوں اور حج و عمرہ کو اپنے معاشرے پر مہر بانی سمجھتے ہیں ۔ جبکہ سمجھنے کی ضرورت یہ ہے کہ کس بات کا فائدہ صرف ہمارا ہے اور کس بات سے ہم اپنے معاشرے کو اپنے مفید ہونے کا احساس دلاتے ہیں ۔

ہم لوگوں کو یہ بات پہلے نمبر پر رکھنی ہو گی کہ بھائی میری نماز ، روزہ ، مذہب خالصتا میرا اور میرے خدا کا معاملہ ہے اس سے سامنے والے کا کوئی حاصل وصول نہیں ہے ۔ مجھے حقوق العباد (لوگوں کی حقوق) پر اپنے اعمال درست کرنے ہیں کیوں کہ اس پر میری دنیا کا بھی انحصار ہے اور آخرت کی بخشش کا بھی ۔ میں نے کتنی نمازیں پڑھیں، کتنے روزے رکھے، سے زیادہ اس بات پر بخشش کا انحصار ہو گا کہ ہم نے اپنے والدین ، بہن بھائیوں، شوہر ، بیوی، پڑوسیوں کے حقوق ادا کیئے ۔ کسی یتیم کے سر پر ہاتھ رکھا ۔ کسی بیوہ کو اسے کے پیروں پر کھڑا کیا ، کسی کا جھگڑا ختم کرایا ۔۔۔اور ایسے ہی کام اصل میں ہمارے اعمال ہیں ۔

جن کا نہ صرف پورے معاشرے پر اثر پڑتا ہے بلکہ اللہ پاک نے اس کی بابت ہم پر بھاری ذمہ داریاں عائد کر رکھی ہیں ۔ بات کرتے ہیں تو ہم ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں ۔ کاروباری معاملات ہوں تو صبر تحمل اور برداشت کا نام و نشان نہیں ہے ۔ محلے داری اور پاس پڑوس کا معاملہ ہو ہم لوگوں میں رواداری اور لحاظ نام کو بھی نہیں رہا ۔ پھر ہم کہتے ہیں کہ زمانہ وہ نہیں رہا ۔ زمانہ تو وہی ہے اپنے گریبان میں جھانکیئے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ آپ وہ نہیں رہے ۔ جیسے ہم سے پہلے لوگ ہوا کرتے تھے ۔ آج خود غرضی اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ بھائی بھائی کو اور بہن بہن کو لوٹنے سے پہلے ایک لمحے کو بھی سوچنا پسند نہیں کرتے ۔

ہر ایک کی پہلی سوچ یہ ہی ہوتی ہے کہ موقع غنیمت جانو لوٹ لو ، اٹھا لو فائدہ اور جب کچھ نہ بچے تو آنکھیں ماتھے پر نہیں اب تو پیٹھ پر سجا لو کہ بھائی تو کون میں کون ۔۔

مادہ پرستی اور خود غرضی ہمارے اپنے من چاہے وہ عیوب ہیں جو ہم نے خوشی خوشی اپنے اعصاب پر سوار کیئے ہیں ۔ جب تک ہم انہیں اپنے کندھوں سے نہیں اتاریں گے ہماری منزل کا سفر نہ سہل ہو گا نہ مکمل۔ نہ دنیا میں نہ آخرت میں۔۔۔۔۔۔۔

Mumtaz Malik

Mumtaz Malik

تحریر: ممتاز ملک۔ پیرس