بجائے اس کے

Vote

Vote

تحریر : خواجہ مظہر

بجائے مدرسے کے طلباء کو انگریزی ڈگریاں دینے کے کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہر ادارے میں دینی ڈگری لازمی ہو حصول ملازمت کے لیے پھر دیکھنا یہ سب لبرل آنٹی انکلز اپنے لونڈے لونڈیوں کو کیسے دھڑا دھڑ مدرسوں میں داخل کرواتے ہیں اصلاح اچھے دماغ اور اچھی سوچ سے آتی ہے اصلاح صرف ووٹ کے حصول کے لیے نظام میں تبدیلیاں کرنے سے نہیں آتی۔

بجائے افغانیوں کو نیشنیلٹی دینے کے عربوں اور یورپین کے قانون لاگو کرتے ہوئے ان کو پاکستانیوں کی کفالت میں کیوں نہیں دیتے۔ ایک تو پاکستانی ہر ماہ اور ہر سال کفالت لے کر خوشحال ہونگے دوسرے ہر پاکستانی کفیل کا سپانسرڈ افغانی اس پاکستانی کی ضمانت پہ ہو گا اور پھر پشتین جیسی بدمعاشیا بھی جنم نہیں لے گی تیسرے ہر سال اقامہ کی تجدید کی مد میں حکومت کو اربوں روپے ٹیکس وصول ہو گا۔

بجائے پولیس کی وردیاں تبدیل کرنے کے ہر تھانے میں ایک رینجر اہلکار کو ایس ایچ او اور ہر ضلع میں ایک آرمی کیپٹن کو ڈی پی او کیوں نہیں لگایا جاتا میں یقین سے کہتا ہوں 100 فیصد رشوت کا خاتمہ ہو جائے گا۔

بجائے اس کے کہ عدلیہ اور وکلاء کو غریبوں کی جیبوں پہ ہاتھ صاف کرنے دینے کے ایسا کیوں نہیں کیا جاتا کہ وکلاء کے ہر کیس کی فیس حکومت ادا کرے گی لیکن کیس کے فیصلہ کے بعد اور وہ بھی ایک مخصوص فیس۔ اور جو جج غلط فیصلہ دے گا اسے اسی جرم کی اتنی ہی سزا کاٹنا پڑے گی کہ جتنی سزا وہ دے چکا ہو گا۔ پھر دیکھیں کون علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایل ایل بی کر کے محکمہ عدلیہ میں آتا ہے۔

بجائے اس کے کہ ہر پاکستانی کو ووٹ کا حق دیں کیوں نہ صرف کم سے کم میٹرکولیٹ یا کسی بھی مدرسہ سے حافظ قرآن کا سرٹیفکیٹ ہولڈر ہی ووٹ کاسٹ کر سکے پھر دیکھیں تبدیلی رونماء ہوتی ہے یا نہیں۔

ہمیں اپنی سوچ اپنا نظام بدلنا ہو گا لیکن صحیح طریقے سے ورنہ کتے کا منہ مشرق سے مغرب کی طرف کر دینے سے آپ اسے بکرا کہہ کر حلال نہیں کر سکتے اس کے لیے آپ کو لازمی کتے کو ہٹا کر بکرا ہی لانا پڑے گا۔

اللہ ہم سب کو ہدایت کے رستے پہ چلنے کی توفیق عطاء فرمائے۔

تحریر : خواجہ مظہر