کامیاب آپریشن

Pak Army

Pak Army

تحریر : امتیاز علی شاکر
آپریشن کا نام سنتے ہی ہمارے ذہنوں میں فوری طور پر دنیا بھر میں جاری دہشتگردی کے خلاف ہونے والے آپریشنز کا خیال آتاہے۔ حکومتیں اکثر ایسے آپریشنز کی کامیابی کے حوالے سے بیانات بھی جاری کرتیں رہتی ہیں پر دہشتگردی کم ہونے کی بجائے تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے ۔ چاروں طرف خوف کا ماحول ہے۔پیشگی اطلاعات موصول ہونے کے باوجود لاہور واہگہ بارڈ پر ہونے والے خودکش بم دھماکے میں 60سے زائد افراد جان سے گئے اورسینکڑوں زخمی ہوئے ۔عرصہ دراز سے پاکستانی علاقوں میں دہشگردوں کے خلاف آپریشنز جاری ہیں ،حکومتی ذرائع ہمیشہ اِن آپریشنز کی کامیابی کے گیت گنگناتے رہتے ہیں پر سب فضول ۔تیر،تلوار،بندوک ،توپ اور میزائل سمیت کسی بھی جان لیوا ہتھیار سے کیا جانے والا آپریشن کسی کی جان کیسے بچا سکتا ہے؟لازم ہے کہ ایسے آپریشنز میں جن کے باپ،بھائی،بہنیں بچے اور دیگر عزیز رشتہ دارمارے جائیں گے وہ انتقام لیں گے۔یعنی جیسا عمل ہوگا ویسا ہی ردعمل آئے گا۔ تنائو بھرے ماحول میں کسی خوش خبری کو فراموش کردینا بہت بڑی حماقت ہوا کرتی ہے اس لیے تکلیف دے خبروں کے ساتھ ایسے کامیاب آپریشنز کی بات کرنا ضروری ہے جو خوشخبری کی حیثیت رکھتے ہیں۔

الائیڈ ہلتھ پروفیشنلزآرگنائزریشن ،لاہور جنرل ہسپتال لاہورکے سیکرٹری نشرو اشاعت محمد اکرام نے مجھے بتایا کہ پروفیسر انجم حبیب وہرہ صاحب کی انتھک محنت،لگن اور انتہائی صلاحتوں کی بدولت ایل جی ایچ میں علاج معالجے کی سہولیات دن بدن بہتر ی کی طرف گامزن ہیں۔ پروفیسر انجم حبیب وہرہ ، پروفیسر آف نیوروسرجری ڈاکٹر خالد محمود ہمارا قومی سرمایہ ہیں۔قارئین خوشی کی خبر یہ ہے کہ رعشہ اورپٹھوں کے کھچائو میں مبتلا مریضوں کو اب علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کی ضرورت نہیں رہی ۔پاکستان میں پہلی مرتبہ ڈی بی ایس کے ذریعے دماغ کے اندر توانائی پہنچا کر رعشہ اور پٹھوں کے کھچائوکی بیماری کے علاج کیلئے جنرل ہسپتال لاہور میں دو کامیاب آپریشن کئے گئے ۔پریس کانفرس کرتے ہوئے پرنسپل پی جی ایم آئی و امیر الدین میڈیکل کالج پروفیسر انجم حبیب وہرہ نے میڈیا کو بتایاکہ جدید آپریشن کرنے والے پاکستانی نوجوان پروفیسر آف نیوروسرجری ڈاکٹر خالد محمود امریکہ اور برطانیہ سے خصوصی تربیت حاصل کرچکے ہیںاور وہ آئندہ بھی جنرل ہسپتال میں ایسے مریضوں کامعائنہ اور علاج کرتے رہیں گے۔

رعشہ اورپٹھوں کے کھچائو میں مبتلا افراد کوبیرون ملک جانے کی ضرورت نہیں اب 6سے 8گھنٹوں کے طویل جدید آپریشن کی سہولت ایل جی ایچ میں دستیاب ہے۔ ترقی یافتہ امریکہ اور برطانیہ میںاس علاج پرتقریباً ایک کروڑ روپے تک خرچ ہوتے ہیں جبکہ پاکستان میں تقریباً20لاکھ میں علاج کیا جائے گا ،انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ DBSکے آپریشن میں استعمال ہونے والے طبی آلات کیلئے حکومت پنجاب نے 5کروڑ روپے فراہم کئے ۔راقم اس کامیابی پر حکومت پنجاب ،پروفیسرڈاکٹر خالد محمواور پروفیسر انجم حبیب وہرہ سمیت اُن کی پوری ٹیم کو مبارباد پیش کرتا ہے۔کاش اس خو شخبری کے ساتھ یہ خبر بھی شامل ہو جاتی کہ اب صدر ،وزیر اور مشیربھی عوام کی طرح اپنا علاج پاکستان میں کروایا کریں گے تو خوشی دوبالا ہوجاتی۔انسانیت کی خدمت کرنے والے ڈاکٹر زکو مسیحا بھی کہا جاتا ہے پر جب یہی مسیحا چور بن جائیں توکیاکیا جائے؟ایک اور خبر کے مطابق لاہور کے علاقہ چوہنگ میں پولیس نے گردہ فرشوں کا گرو گرفتار کر لیا ہے جس میں 2سرجن ڈاکٹر بھی شامل ہیں۔

Doctor With Patient

Doctor With Patient

شاہ پور کا نجراں کی رہائشی عائشہ نامی خاتوں نے تھانہ چوہنگ میں پولیس کو بتایا کہ کچھ نامعلوم افراد نے اُسے اغوا کے بعد بے ہوش کر کے اُس کا گردہ نکال لیاہے، خاتون کی شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے پولیس نے چھاپہ مار کر گردہ فروش گرو جس میں ماڈل ٹائون کے رہائشی سرجن ڈاکٹر ثنا اللہ ،ڈاکٹر عمران حسان سمیت ملزم یٰسین اور امجد شامل ہیں کو گرفتار کرلیا۔پولیس کے مطابق ملزم لوگوں کو نشہ آور اشیا کھلاکر اغواکرتے جس کے بعد اُن کے گردے نکال کر چھوڑ دیتے تھے۔ ایک طرف ڈاکٹرز انسانیت کی خدمت میں اپنے آپ کو وقف کررہے ہیں تو دوسری جانب یہی مسیحا گردہ چوری میں جاہلوں کا ساتھ دیکر مسیحا کی مسیحائی پر سوالیا نشان لگا رہے ہیں ۔مریض کی جان بچانے کیلئے ڈاکٹرزیادہ تر آپریشنز بے ہوشی کی حالت میں کرتے ہیں ۔اُس وقت ڈاکٹرز،مریض اور میڈیکل سٹاف کے علاوہ آپریشن تھیٹر میں کوئی موجود نہیں ہوتا تو کیااب آپریشن تھیٹر میں بھی سکورٹی گارڈ ساتھ رکھنا پڑیں گے۔ہم جس مسیحا کو اپنے پیاروں کے جسم کاٹ کر آپریشن کرنے کی اجازت دیتے ہیں اُنھیں پر سے اعتبار اُٹھ گیا تو پھر جان بچانے کاکام کون کرے گا۔

حکومت وقت کو چاہئے کہ اس قسم کے انسانیت سوز واقعات سے بچنے کیلئے اس معاملے کی تہہ تک جائے اور معلوم کرے کہ آخر وہ کون سی وجوہات ہیں جنہوں نے ڈاکٹر ز حضرات کو اس قدر مجبور کردیا کہ وہ جرائم پیشہ عناصر کے ساتھ مل کر لوگوں کے گردے چوری کرنے لگے؟یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ آکر کم پڑھے لکھے اور بے ہنر افراد جرائم کی طرف راغب ہوجاتے ہیںپر ڈاکٹر بننے کے بعد چوری حکومت اور ترقی یافتہ معاشرے کے منہ پرایسا زور دارتمانچہ ہے جس کی گونجھ صدیوں سنائی دیتی رہے گی۔

آج کا طالب علم یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے گا کہ ڈاکٹر بن کر بھی چوریاں ہی کرنی ہیں تو 30سال ضائع کرنے کا کیا فائدہ ؟چور تو اَن پڑھ لوگ بھی بن جاتے ہیں پھر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے کیا حاصل ؟اللہ کرے یہ خبر غلط ثابت ہو کہ گردہ فروشی کے جرم میں گرفتارہونے والے ملزمان میں ڈاکٹرز بھی شامل ہیں۔ شامل ہیں تو اللہ کرے ڈاکٹر ز حضرات بے گناہ ثابت ہوجائیں تاکہ انسانیت کا اپنے مسیحا پر اعتبار قائم رہے اور وہ وقت بھی جلد آئے جب حکمران طبقہ بھی عوام کے ساتھ اپنے وطن میں علاج معالجہ کروائے۔یا اللہ میرے وطن میں ایسے ڈاکٹرز پیدا ہوں جو ترقی یافتہ ممالک کے حکمرانوں کو علاج کی غرض سے پاکستان آنے پر مجبور کردیں ۔اللہ کرے کہ رعشہ اور پٹھوں کے کھچائوکی بیماری کے علاج کیلئے جنرل ہسپتال لاہور میں ہونے والے دو کامیاب آپریشنزکی طرح دہشتگردی کے خلاف ہونے والے آپریشنز بھی کامیاب ہوں اور دنیا بھرسے دہشتگری کا خاتمہ ہوجائے اور ہر ایک کو ایسا باعزت روز گار میسر آئے کہ پھر کسی کو بھی چوری چکاری یا خودکش بمبار بننے کی ضرورت ہی نہ رہے(آمین)۔

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

تحریر : امتیاز علی شاکر
imtiazali470@gamil.com
03154174470