شام میں یورپ اور امریکا پوری طرح ناکام: تجزیہ

Bashar al-Assad

Bashar al-Assad

شام (اصل میڈیا ڈیسک) مشرقِ وسطیٰ کے ملک شام میں بشار الاسد پچھلے بیس برسوں سے اقتدار میں ہیں۔ ان کے اتنے طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے کی وجہ روس اور ایران کی حمایت اور مغرب کی دوری ہے۔

تجزیہ نگار رائنر زولِش کے مطابق بیس برسوں سے اقتدار میں رہنے والے شامی صدر بشار الاسد کے لیے مقام فخر ہو سکتا ہے کہ انہوں نے سن 2011 کی جمہوری مزاحمتی تحریک کو توڑنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس کامیابی میں انہیں روس اور ایران کی بھاری عسکری حمایت حاصل رہی۔ وہ عملاً طویل خانہ جنگی کو شکست دے چکے ہیں۔ ان کے مخالفین گھٹتے گھٹتے اب تھوڑے سے مسلمان شدت پسند بچے ہیں، جن کے قبضے میں ملک کا ایک چھوٹا سا حصہ رہ گیا ہے۔

مزید براں مغرب کے نزدیک داعش (اسلامک اسٹیٹ) اور دوسرے دہشت پسند ملیشیا، جنہوں نے ظلم و جبر کا جو انداز اپنایا تھا، ان کے مقابلے میں بشار الاسد قدرے کم قصوروار ہیں۔ اسی تناظر میں مغربی حکومتوں اور مبصرین نے ان کے استعفیٰ کا مطالبہ ختم کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ امریکا اور یورپ میں اسد نے اپنے حامیوں کی تعداد میں اضافہ کر لیا ہے اور جمہوری مزاحمتی تحریک چلانے والی اپوزیشن دور کنارے پر کھڑی ہے۔ یہ بھی اسد کی ایک اور کامیابی قرار دی جا سکتی ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ بشار الاسد اقتدار پر پہلے سے زیادہ مضبوط ہو کر براجمان ہو چکے ہیں۔ اقتدار پر مضبوط ہونے کی وجہ جہاں مغرب کی ناکامی ہے وہاں روس اور ایران کی حمایت و امداد بھی ہے۔ یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ خطے سے بتدریج اسٹریٹیجک انداز میں پیچھے ہٹتے نظر آ رہے ہیں۔ ان کے پیش رو باراک اوباما نے مغرب کی شامی پالیسی کی حقیقت کھول دی تھی جب اسد کے کیمیکل ہتھیار استعمال کرنے اور سرخ لکیر عبور کرنے کے بعد بھی وہ فوجی مداخلت کی دھمکی پر عمل پیرا نہیں ہو سکے تھے۔

اس دوران یورپی یونین کی توجہ شام اور خطے کے لیے انسانی امداد پر مرکوز ہو گئی اور وہ اس تناظر میں اپنی بہترین کاوشوں کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ ایک اور پہلو یہ ہے کہ یورپی یونین ترکی کے ساتھ ایک ڈیل کو طے کرنے میں کامیاب رہی تا کہ یورپی دروازوں سے شامی مہاجرین کو دور رکھا جا سکے۔ اس کا مقصد یونان کے مہاجرین کیمپوں میں انسانی المیے کے پیدا ہونے کو روکا جا سکے۔

شام میں بمباری اور فضائی اور زمینی حملوں کے نتیجے میں کھنڈرات شامی بچوں کا مستقبل بن کر رہ گئے ہیں۔

شامی تنازعے میں تمام تر ناکامیوں کے باوجود روشنی کی ایک کرن یورپی یونین میں ظاہر ہوئی ہے۔ یہ شام کے ایسے مشتبہ افراد پر مقدمات سے متعلق ہے جنہوں نے وہاں جنگی جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔ جرمنی میں شامی مسلح تنازعے میں جہادیوں کے ساتھ ساتھ اسد حکومت کے حامیوں کو بھی ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے پر مقدمات کا سامنا ہو گا۔ ایک اہم پیش رفت یہ ہے کہ بعض افراد کی چھان بین کے بعد انہیں انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا گیا ہے۔

اس کی توقع کی جا سکتی ہے کہ کبھی شام کی جنگی صورت حال میں شریک کرداروں کو ملنے والے اسلحے اور سرمائے کے بارے میں تفصیلی انکوائری ہوئی تو پھر خلیجی ریاستوں اور ترکی پر لگے سوالیہ نشانات کے جواب مل سکیں گے۔

یہ واضح ہے کہ شامی مسلح تنازعے میں تقریباً پانچ لاکھ افراد کی ہلاکت، اسکولوں، ہسپتالوں اور شہری علاقوں پر بمباری کی ذمہ داری کا تعین کب ہو گا۔ اگر کبھی شام کے لیے انصاف کا عمل مکمل ہوا تو مرکزی ملزم شامی دارالحکومت دمشق کے صدارتی محل میں چھپا ملے گا۔ اس کے حامیوں میں ماسکو اور تہران ہوں گے۔