شامی صوبے ادلب میں حکومتی فورسز کی بمباری، ہلاکتوں کی تعداد 100 سے تجاوز

Syria Forces Bombing

Syria Forces Bombing

دمشق (جیوڈیسک) شام کے شمال مغربی علاقوں میں گزشتہ 10 روز سے جاری شامی حکومت اور اتحادیوں کی بمباری سے ہلاکتوں کی تعداد 100 سے تجاوز کر گئی۔

اقوم متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق کی سربراہ مشیل باشیلے کے مطابق شام کے شمال مغربی صوبے ادلب میں حکومتی اتحادیوں کی جانب سے گزشتہ 10 روز سے جاری بمباری میں 100 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے ہیں جس میں میں 26 بچے بھی شامل ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ شامی حکومت اور ان کے اتحادیوں نے اسپتالوں، اسکولوں، مارکیٹوں اور بیکریوں کو نشانہ بنایا، ان حملوں پر دنیا کی بے حسی واضح ہے اور یہ دنیا کی طاقتور اقوام کی قیادت کی ناکامی ہے۔

مشیل باشیلے کے مطابق شہری آبادی کو نشانہ بنانا جنگی جرائم میں آتا ہے اور جنہوں نے اس کا حکم دیا ہے، اُن پر کارروائی ہوسکتی ہے۔

دوسری جانب شامی حکومت اور روس نے شہری آبادی کو نشانہ بنانے کی تردید کی ہے۔

شامی صوبے ادلب، شمالی صوبہ حماہ اور مغربی صوبہ حلب شامی حکومت اور باغیوں کے درمیان جاری 8 سالہ خانہ جنگی کے بعد حزب اختلاف کے آخری گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔

یہ علاقے شامی حکومت اور باغیوں کے درمیان روس اور ترکی کی ثالثی میں ستمبر میں ہونے والی عارضی جنگ بندی میں بھی مبینہ طور پر شامل تھے جس کی وجہ سے ان علاقوں میں بسنے والے تقریباً 27 لاکھ افراد حکومتی کارروائیوں کا نشانہ بننے سے بچ گئے۔

گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ نے کہا تھا کہ 29 اپریل سے شروع ہونے والی ان کارروائیوں میں 350 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے اور 3 لاکھ سے زائد افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے تاہم اب اقوام متحدہ نے نئے اعداد و شمار جاری کیے ہیں جن کے مطابق صرف گزشتہ 10 روز میں 103 سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور 4 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے ہیں۔

شام میں جنگ کیسے شروع ہوئی؟
شام کے موجودہ صدر بشار الاسد نے سن 2000 میں اپنے والد کی وفات کے بعد اقتدار سنبھالا تھا۔ شام میں جنگ شروع ہونے سے کافی پہلے ہی بشار الاسد کی حکومت میں شامی عوام بے روزگاری، کرپشن اور سیاسی آزادی نہ ہونے کی شکایتیں کررہے تھے۔

مارچ 2011 میں پڑوسی ممالک میں جاری ‘عرب بہار’ سے متاثر ہوکر پہلی بار شام کے جنوبی شہر درعا میں جمہوریت کے حامیوں نے مظاہرے شروع کیے۔

شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت نے ان مظاہروں کو طاقت کے زرو پر کچلنے کی کوشش کی تو اپوزیشن نے مزاحمت کی اور یہ تحریک ملک بھر میں پھیل گئی۔

وقت کے ساتھ ساتھ مظاہرے بڑھتے رہے اور ساتھ ہی حکومت کا کریک ڈاؤن بھی شدید ہوتا گیا۔

اپوزیشن کے حامیوں نے پہلے اپنے تحفظ اور پھر اپنے علاقوں سے حکومتی فورسز کو نکال باہر کرنے کیلئے ہتھیار اٹھالیے۔

بشار الاسد نے اس مسلح جدوجہد کو غیرملکی حمایت یافتہ دہشتگردی قرار دیا اور اسے پوری قوت سے کچلنے کا عزم ظاہر کیا جس کے بعد پرتشدد کارروائیاں بڑھ گئیں اور ملک خانہ جنگی کا شکار ہوگیا۔

شام میں مارچ 2011 سے خانہ جنگی جاری ہے جس میں اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اب تک 5 لاکھ سے زائد لوگ ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔