کشیدگی کے وقت میں بھی مذاکرات کی صلاحیت کا ثبوت دیا ہے: جوبائیڈن

 Joe Biden

Joe Biden

جنیوا (اصل میڈیا ڈیسک) دنیا کی دو بڑی عالمی طاقتوں امریکا اور روس کے صدور کی کل بدھ کے روز مسلسل چار گھنٹے طویل ملاقات کے بعد دونوں نے کشیدگی میں کمی پر اتفاق کیا ہے۔

اس موقعے پر امریکا روس سربراہ اجلاس کے بعد ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا ہے جس می اسٹریٹجک استحکام پر بات چیت شروع کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔

دونوں رہنماؤں نے مزید کہا کہ سربراہ اجلاس کشیدگی کے وقت بھی بات چیت کرنے کی ان کی صلاحیت کو ثابت کرتا ہے۔ یہ کہ دونوں مسلح تنازعات اور جوہری جنگ کے خطرات کو کم کرنے کے لیے بات چیت کرنے کے اہل ہیں۔

بیان میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اسٹارٹ ٹریٹی میں توسیع نیوکلیئر ہتھیاروں کو محدود کرنے کے عزم کی تجدید کرتی ہے۔اسٹریٹجک بات چیت سے یقینا ان ہتھیاروں کے خطرات کو کم کیا جائے گا۔

یہ بیان جنیوا کے ایک پرتعیش ولا میں بدھ کے روز دونوں صدور کے درمیان ہوا۔ اس دوران بائیڈن نے اس بات پر زور دیا کہ براہ راست ملاقاتیں ہمیشہ بہتر رہتی ہیں۔ انہیں جاری رہنا چاہیے۔

انہوں نے دونوں ممالک کے مابین تناؤ کو کم کرنے کی کوشش میں ون آن ون ملاقات کی اہمیت پر زور دیا۔

صدر جوبائیڈن نے مزید کہا کہ واشنگٹن نے سرد جنگ کے دوران ماسکو کے ساتھ اتفاق کیا تھا اور اب وہ یہ کرسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ روس ان دنوں بہت مشکل وقت کا سامنا کر رہا ہے۔

امریکا اور روس نے اپنے اپنے سفیروں کی ایک دوسرے کے دارالحکومت میں واپسی سے اتفاق کیا ہے۔جنیوا میں بدھ کو روسی صدر ولادی میرپوتین نے امریکی ہم منصب جو بائیڈن سے ملاقات کے بعد دونوں ملکوں کے سفیروں کی ان کے مناصب پر واپسی کا اعلان کیا ہے۔

روس کی خبررساں ایجنسی انٹرفیکس کے مطابق اس سربراہ ملاقات میں امریکا اور روس نے ایک مشترکہ اعلامیے کی بھی منظوری دی ہے۔اس کے تحت جوہری جنگ کو روکنے کے طریقے تلاش کیے جائیں گے۔

صدرولادی میرپوتین نے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں روس میں اپنے سیاسی مخالفین کو خاموش کرانے،جیل میں ڈالنے یا انھیں قتل کرنے سے متعلق سوالوں کے جواب نہیں دیے ہیں۔

انھوں نے امریکی کمپنیوں اور سرکاری اداروں پر سائبرحملوں کے بارے میں کہا کہ ان میں ان کا یا کریملن کا کوئی کردار نہیں ہے۔اس کے بجائے انھوں نے امریکا میں مقیم ہیکروں پر دنیا میں ہونے والے بیشترسائبرحملوں میں ملوث ہونے کا الزام عاید کیا ہے۔تاہم روسی صدر نے اپنے اس دعوے کے حق میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا ہے۔