دہشت گردی کا خطرہ، کئی ممالک میں امریکی سفارتخانے بند

Snaa

Snaa

صنعا (جیوڈیسک) دہشت گردی کے خطرے کے باعث مشرق وسطی اور شمالی افریقی ممالک میں امریکہ، فرانس اور جرمنی کے سفارتخانے بند رہے، فرانس کے سفارتخانے کئی روز بند رہیں گے۔ مشرق وسطی اور شمالی افریقی ممالک میں قائم امریکی اور چند یورپی ممالک کے سفارت خانے اتوار کو بند رہے۔ یہ اقدم دہشت گردی کے کسی ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔

فرانسیسی انتظامیہ نے یہ اعلان کیا تھا کہ اتوار کے روز یمن میں قائم فرانسیسی سفارت خانہ بند رکھا جائے گا۔ اطلاعات کے مطابق پیرس انتظامیہ نے سفارت خانے کو اگلے چند روز کے لیے بند رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ فرانس کے صدر فرانسوا اولاندے نے بھی افریقی ملک یمن میں مقیم فرانسیسی باشندوں کو احتیاط برتنے کی ہدایت جاری کی ہے۔ فرانس کی جانب سے یہ قدم اس وقت اٹھایا گیا۔

جب اس سے پہلے جرمنی اور برطانیہ کی طرف سے بھی یہ اعلان کیا جا چکا ہے کہ یمن میں قائم ان ملکوں کے سفارت خانوں کو اتوار چار اور پیر پانچ اگست کے روز بند رکھا جائے گا۔ قبل ازیں واشنگٹن انتظامیہ کی جانب سے بھی یہ اعلان کیا جا چکا ہے کہ اتوار سے سترہ ممالک میں قائم اکیس سفارتی دفاتر بند رکھے گئے۔ یہ اقدامات اس لیے اٹھائے جا رہے ہیں۔

کیونکہ امریکا نے دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ سے تعلق رکھنے والے جنگجوئوں کے ایک گروپ کی گفتگو تک رسائی حاصل کر لی ہے۔ امریکی اخبار کی کل ہفتے کے روز شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں امریکی اہلکاروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ القاعدہ کے ارکان کی اس گفتگو میں مشرق وسطی اور شمالی افریقی خطے میں دہشت گردی سے متعلق منصوبہ بندی کا ذکر کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ القاعدہ کے اعلی اہلکاروں کی بات چیت تک رسائی آسانی سے حاصل نہیں ہوتی اور اسی لیے حالیہ پیش رفت کے بارے میں امریکی انٹیلیجنس سی آئی اے سمیت دفتر خارجہ اور وائٹ ہائوس کو اس حوالے سے بریفنگ بھی دی گئی ہے۔

ادھر برطانوی انٹیلیجنس اور انٹرپول نے بھی پاکستان، عراق اور لیبیا میں جیلوں سے خطرناک قیدیوں کے فرار ہونے کے حالیہ واقعات کے تناظر میں سکیورٹی انتظامات سخت تر کر دیے ہیں۔ سکیورٹی سے متعلق حالیہ خدشات کے پیش نظر ہفتے کے روز وائٹ ہائوس میں امریکا کے اعلی اہلکاروں نے ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات میں مشیر برائے قومی سلامتی سوزن رائس کے علاوہ سیکرٹری دفاع چک ہیگل اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور دیگر اعلی عہدیداران بھی شامل تھے۔