سانحہ پی آئی سی سے سیکھا جائے

Lawyers Hospital Attack

Lawyers Hospital Attack

تحریر : امتیاز علی شاکر

لاہور ہائیکورٹ میں پی آئی سی حملہ کیس میں گرفتار وکلاء کی رہائی کی درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس علی باقر نجفی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”ہاں آپ نے اسپتال پر حملہ کیا، وکلاء کو اسپتال پر حملہ کرنے کی جرات کیسے ہوئی؟ کیا آپ وضاحت دے سکتے ہیں کہ حملہ کیوں کیا گیا؟” جسٹس انوار الحق پنوں نے کہا کہ آپ کو اندازہ ہی نہیں کہ ہم کس دکھ میں ہیں، ہم بہت مشکل سے اس کیس کی سماعت کر رہے ہیں،آپ نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا ”معلوم ہوا ہے کہ سماعت کے بعد جسٹس محمد انوار الحق پنوں نے کیس کی سماعت سے معذرت کرتے ہوئے فائل چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو بھجوا دی۔

جسٹس علی باقر نجفی کے ریماکس سے یوں محسوس ہواجیسے جسٹس صاحب پی آئی سی سانحہ کے عینی شاہدہوں،جس طرح جسٹس صاحب نے وکلاء کومخاطب کرکے کہاکہ ہاںآپ نے اسپتال پر حملہ کیا،وکلاء کواسپتال ل پر حملہ کرنے کی جرات کیسے ہوئی،کوئی عدالت چند دن پہلے وکلاء کے پرامن احتجاج پر ڈاکٹرزاورپیرمیڈیکل سٹاف کوبلاکریہی پوچھ لیتی کہ ہاں آپ نے اسپتال میں وکلاء پرحملہ کیا، ڈاکٹرزاوردیگرعملے کووکلاء پرحملہ کرنے کی جرات کیسے ہوئی؟ڈاکٹرزکافرض زخموں پرمرہم لگاناہے یازخم دینا؟تواسپتال پرحملے کی نوبت ہی نہ آتی، جسٹس انوار الحق پنوں نے کہا کہ آپ کو اندازہ ہی نہیں کہ ہم کس دکھ میںہیں،ہم بہت مشکل سے اس کیس کی سماعت کر رہے ہیں،آپ نے ہمیںکہیں کانہیں چھوڑا”معززجسٹس صاحب کی باتیں سمجھ سے بالاترہیں،عدالتوں میں ہمیشہ لوگ انصاف کی غرض سے جاتے ہیں۔

عدالتیں ہمیشہ سے قتل،منشیات فروشی،لڑائی جھگڑوں،چوری،ڈکیتی اوردیگرجرائم کے کیسزکے فیصلے کرتے ہیں،ڈاکٹرز،وکلاء تنازعہ بھی عدالت کیلئے ایک کیس کی حیثیت رکھتاہے توپھرجسٹس صاحبان کویہ کیس سننے میں مشکل کیسی؟محترم جسٹس صاحب کویہ کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ آپ نے ہمیں کہیں کانہیں چھوڑا،پی آئی سی سانحہ پردکھ،افسوس،مذمت توپوری قوم کررہی ہے،محترم عدالت کے ذمے انصاف کرناہے نہ کہ اظہارافسوس،ڈاکٹرزنے علاج کیلئے آئے وکلاء پرتشدد کیا، ڈاکٹرزحضرات نے وکلاء تشددکیس میں ایم ایل سی دینے سے انکارکیا،غلط کیا،وکلاء کے پرامن احتجاج کے باوجودپولیس نے نامزدملزمان کوگرفتارنہ کیا،غلط کیا،معاملہ افہام وتفہیم سے حل ہوجانے کے بعدڈاکٹرعرفان نے اشتعال انگیزگفتگوکی،غلط کیا،ڈاکٹرعرفان کی اشتعال انگیز ویڈیووائرل ہوئی،غلط ہوا،وکلاء نے صبر کادامن چھوڑا،غلط کیا،وکلاء کی جانب سے سوشل میڈیاپردھمکیوں اوراشتعال دلانے والی و یڈیوزوائرل کی گئی۔

غلط ہوا،وکلاء پرتشددلہجہ اختیارکرتے ہوئے اسپتال پہنچے،غلط کیا،اسپتال کی چھت سے نرسسزنے وکلاء پر پتھرائو کیا،غلط کیا،وکلاء نے ہوائی فائرنگ کی،غلط کیا،اسپتال کے شیشے توڑے،غلط کیا،پولیس کی گاڑی جلائی،غلط کیا،وکلاء کومنتشرکرناپولیس کی ذمہ داری تھی ڈنڈہ بردار ڈاکٹرز اورپیرامیڈیکل سٹاف نے وکلاء پرلاٹھی چارج کیا ،غلط کیا،پولیس نے دل کے اسپتال میں زیرعلاج مریضوں کی کیفیت کوجانے بغیراسپتال کے اندرآنسوگیس کے شل پھینکے ،غلط کیا،مختصریہ کہ اسپتال میں وکلاء پرتشددسے سانحہ پی آئی سی تک جوہواوہ انتہائی افسوس ناک اورقابل مذمت ہے،یادرہے کہ اظہارافسوس،دکھ اور مذمت ہمیشہ بے اختیاراورکمزورافرادیاادارے کیاکرتے ہیں حکومت اورعدالت کاکام اظہارافسوس نہیں انصاف فراہم کرناہے،عدالتوںکاکام تمام پہلووںاورشواہد کودیکھ سن اور سمجھ کر قانون کے مطابق فریقین کوانصاف فراہم کرناہے،کسی فریق کوسنے اورشواہدطلب کیے بغیرکیس سننے سے انکارکرنے والے جسٹس صاحبان خودکومنصف کے منصب کے اہل نہیں سمجھتے توکیس کی بجائے سیٹ چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟معاملہ جیسابھی ہوعدالت کاکام فریقین کوطلب کرکے سننااورشواہدطلب کرنے کے بعد انصاف کرناہے،کیاوکلاء کاکیس سننے سے انکارکرنے والے جسٹس صاحبان خودکو اس قابل نہیں سمجھتے کہ وہ سائلین کوانصاف فراہم کرسکتے ہیں؟

عدالت میں ہمیشہ پیچیدہ معاملات ہی جاتے ہیں۔وکلائ،ڈاکٹرزتنازعہ کوئی پہلایاآخری معاملہ نہیں،جسٹس باقر نجفی صاحب نے جس اندازمیں وکلاء کوڈانٹاانہیں اس کاحق کس نے دیاہے؟وکلاء نے درخواست دائرکی تھی توعدالت کاکام تھاکہ دوسرے فریق اورمتعلقہ اداروں سے شواہدطلب کرکے معاملے کے تمام پہلودیکھنے اور سمجھنے کے بعد قانون کے مطابق انصاف پرمبنی فیصلہ سناناتھانہ کہ سوشل میڈیایاالیکٹرونکس میڈیاکی خبروں کودیکھ کرعینی شاہدبننا،جن وکلاء کے پاس عام لوگ حصول انصاف کی امیدلے کرجاتے ہیں انہیں اس طرح قانون ہاتھ میں لیتے دیکھ کرنہ صرف معاشرے میں بڑھتے عدم برداشت کے رجحان کاعلم ہوتابلکہ نظام عدل کی ناانصافیوں کاچہرہ بھی بے نقاب ہورہاہے،جووکلاء عدالتوں سے اپنے لئے انصاف کی امیدنہ رکھتے ہوئے اپنابدلہ خودلینے نکل آئے وہ عام لوگوں کوانصاف کیسے دلاسکیں گے،اسپتال کے اندروکلاء پرتشددسے شروع ہوکرافسوس ناک پی آئی سی سانحہ رونماہونے تک حکومت اورعدالتوں نے اپنی ذمہ داری پوری کی ہوتی تویقیناحالات مختلف ہوتے،جن وکلاء نے اسپتال پرحملہ کرکے توڑپھوڑکی،پولیس کی گاڑی جلائی،ہنگامہ آرائی کی انہیں سخت سزائیں دی جائیں،بغیر شناخت وکلاء کے گھروں پرچھاپے مار کرچادراورچاردیواری کے تقدس کوپامال نہ کیاجائے،(نوٹ یہ کالم امتیازعلی شاکرنے تحریرکیاہے،کسی اورکے نام سے نظرآئے توبرائے مہربانی اس نمبرپراطلاع دیں،03134237099)جن ڈاکٹرزنے ہڑتالوں اورغنڈی گردی کی انتہاکررکھی،سرکاری ملازم ہونے کے باوجودحکومت مخالف تحریکیں چلاتے ہیں۔

اسپتال کے اندروکلاء پرتشدداوراشتعال پھیلانے والے ڈاکٹرزکونوکری سے نکالاجائے،ان کی ڈگریاں منسوخ کی جائیں،انہیں پرائیوٹ پریکٹس سے روک دیاجائے،ان کی یونین پرپابندی لگائی جائے، ڈاکٹرزتومسیحاہوتے ہیں یہ درندے کیسے بن گئے،ڈاکٹرزنے وکلائ جیسے بااثرطبقے پرتشدد کیا توان سے عام لوگ کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟ ڈاکٹرزسرکاری اسپتالوں کواپنی یونین کے دفاترکس قانون کے تحت بناتے ہیں؟ڈاکٹرزکی ملی بھگت کے بغیرمیڈیسن مافیادونمبرادویات مہنگے داموں فروخت نہیں کرسکتا،ڈاکٹرزکومافیابننے سے روکانہ گیاتوپھرکوئی محفوظ نہیں رہے گا،قوم نے دیکھاکہ وکلاء سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کوجیل سے نکال کرلندن پہنچانے میں کتنے ماہ ناکام رہے جبکہ یہی کام ڈاکٹرزنے چنددن میں کردیکھایا،حکومت اورنیب والے ابھی تک حیران ہیں کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہوگیا،وکلاء سرکارکے ملازم ہیں نہ تنخواہ لیتے ہیں جبکہ ڈاکٹرزحضرات تنخواہ بھی لیتے ہیں اورہڑتالیں بھی کرتے ہیں،سرکاری اسپتالوں کی بجائے اپنے پرائیوٹ اسپتالوں کوزیادہ توجہ دیتے ہیں،مریضوں کوہرطرح سے مجبورکیاجاتاہے کہ سرکاری اسپتالوں کی بجائے پرائیوٹ مہنگاعلاج کروائیں،عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ پی آئی سی میں وکلاء پرتشددسے سانحہ رونماہونے تک تمام معاملات کی چھان بین کروائے،ہرپہلوکودیکھے،حقائق اورقانون کے مطابق بلاامتیازانصاف کے تقاضے پورے کرے،وکلاء برادری بھی اشتعال میں آنے کی بجائے آئندہ قانون ہاتھ میں نہ لینے کااعلان کرے، حکومتی وزرابھی غیرضروری بیان بازی سے معاملہ مزیدخراب کرنے گریزکریں،سانحہ پی آئی سی کے تمام ذمہ داران کے ساتھ آئین وقانون کے مطابق سلوک کیاجائے تاکہ آئندہ اس طرح کے سانحات رونمانہ ہوں،اظہاررائے کی آزادی کوآزادی توہین نہ بنایاجائے،تنقید کرنے والے اپنے لہجے اورالفاظ کواخلاقیات کے دائرے سے باہرنہ جانے دیں۔

Imtiaz ali shakir

Imtiaz ali shakir

تحریر : امتیاز علی شاکر