امریکی فوجی نے 16 افغانوں کے قتل کا اعتراف کر لیا

U.S. Military

U.S. Military

ٹاکوما (جیوڈیسک) استغاثہ کا مجرم کے لیے سزائے موت کا مطالبہ نہ کرنے کا اعلان ، عمر قید کی سزا سنائے جانے کا امکان، جو کچھ کیا اس کا قانونی جواز پیش نہیں کر سکتا ، مجرم فوجی کا عدالت میں بیان۔

افغانستان میں 16 شہریوں کو ہلاک کرنے والے امریکی سٹاف سارجنٹ رابرٹ بیلز نے سزائے موت سے بچنے کے لیے فوجی استغاثہ کے ساتھ ایک ڈیل کے تحت اعتراف جرم کر لیا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق انتالیس سالہ رابرٹ بیلز نے فوجی ٹربینونل کے سامنے باقاعدہ طور پر اعتراف جرم کیا ۔

اس نے گیارہ مارچ 2012 کو قندھار صوبے میں بلا اشتعال فائرنگ کرتے ہوئے 16 افغان شہریوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ استغاثہ کے ساتھ طے پانے والی اس ڈیل کے تحت بیلز نے اپنے اوپرعائد تمام تر الزامات کا اعتراف کیا۔ استغاثہ نے بتایا ہے کہ اعتراف جرم کی اس ڈیل کے بعد اب وہ مجرم کے لیے سزائے موت کا مطالبہ نہیں کرے گا۔

تاہم سٹاف سارجنٹ رابرٹ بیلز کو پیرول کے بغیر عمر قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ مقدمے کے دوران جب بیلز سے پوچھا گیا کہ اس نے قتل کی یہ واردات کیوں سر انجام دی تو اس نے کہا کہ اس نے یہ سوال خود سے لاکھوں مرتبہ پوچھا ہے اور اسے اس حوالے سے کوئی مناسب دلیل نہیں ملی کہ اس نے یہ قتل عام کیوں کیا۔

بیلز نے مزید کہا کہ اس نے جو کچھ بھی کیا اس کے لیے کوئی قانونی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ٹاکوما کے قریب واقع جوائنٹ بیس لیوس میکورڈ میں ہوئی اس فوجی عدالتی کارروائی کے دوران جج کرنل جیفری نینس نے ایک طویل سماعت کے بعد بیلز کے اعتراف جرم کی ڈیل کو منظور کیا۔

بیلز کی اہلیہ بھی کمرہ عدالت میں موجود تھی اور اس کارروائی کو دیکھ رہی تھی۔ بیلز پر دانستہ طور پر قتل کرنے کے سولہ، اقدام قتل کے چھ اور حملہ کرنے کے سات الزامات عائد کیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ بیلز کو الکوحل اور منشیات کے استعمال جیسے الزامات کا بھی سامنا تھا۔

رابرٹ بیلز نے افغانستان میں اپنی تعیناتی کے دوران قندھار میں واقع اپنے فوجی اڈے کے قریب واقع دیہات میں جن شہریوں کو ہلاک کیا تھا ان میں زیادہ تر بچے اور خواتین شامل تھے۔ استغاثہ کے بقول بیلز کی اس کارروائی میں اس کے ساتھ کوئی نہیں تھا بلکہ اس نے یہ کام اکیلے ہی کیا۔ رابرٹ بیلز کے وکیل کا موقف ہے کہ اس کا موکل افغانستان تعینات کیے جانے سے پہلے ہی نفیساتی مسائل کا شکار ہو چکا تھا۔