سیلاب متاثرین کی بے بسی اور حکومتی بے حسی

Flood

Flood

سیلاب کی وجہ سے ملک ڈوب رہا ہے،لوگ مر رہے ہیں،سامان پانی کی نذر ہو گیا،پینے کے لئے صاف پانی نہیں،کھانے کے لئے لقمہ نہیں،وبائی امراض نے بھی سیلابی علاقوں میں افراد کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیامگر حکومتی بے حسی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی،وزیر اعظم سیلاب متاثرہ علاقوں کے دورے پہ دورے کر رہے ہیں لیکن ان دوروں کا کیا فائدہ جہاں صرف گا۔۔۔۔گی۔۔۔۔اور ۔۔۔گے۔۔۔۔کے علاوہ کوئی لفظ زبان سے نہ نکلے صرف وعدے ہی کیئے جائیں۔دوروں پر لاکھوں روپے کے اخراجات صرف اور صرف سیاست چمکانے اور کرسی کو مضبوط کرنے کے لئے ہیں۔ وزیر اعظم کے اعلانات ہم سروے کریں گے،ہم نقصان کا ازالہ کریں گے،ہم گھر بنا کے دیں گے ،لیکن اسوقت آپ نے کیا کیا،قوم یہ پوچھتی ہے،حالت یہ ہے کہ لوگ سیلاب میں ڈوبے ہوئے ہیں اور قوم کو انتخابی مہم کی طرح وعدے کئے جا رہے ہیں۔

جو کبھی بھی کسی صورت میں پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتے۔گزشتہ روز وزیر اعظم نواز شریف کے خان محمد والا ریلیف کیمپ کے دورہ کے دوران متاثرین سیلاب نے شدید احتجاج کیا اور گو نواز گو کے نعرے لگائے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے خان محمد ریلیف کیمپ کا دورہ کیا جہاں ڈی سی او سرگودھا نے دریائے چناب میں آنے والے حالیہ سیلاب کے نقصانات اور ریسکیو آپریشن اور ریلیف کے حوالے سے وزیر اعظم کو بریفنگ دی۔ متاثرین سے خطاب کرتے ہوئے میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ چناب میں سیلاب کا پانی اچانک آیا، سیلاب متاثرین کے دکھوں اور مشکلات کا پورا پورا احساس ہے دعا ہے اللہ پاکستان پر رحم کرے، یہ حلقہ مجھے بہت پیارا ہے۔

یہ حلقہ، یہ ضلع، یہ شہر، یہ بستی میری ہے، میں یہاں سے الیکشن لڑا تھا اور آپ نے مجھے کامیاب کرایا تھا، تعمیر نو کے لئے ہم آپ کی مدد کریں گے، فصلوں کا معاوضہ دیں گے اور آپ کے مکان تعمیر کریں گے۔ جب تک متاثرین کی بحالی نہیں ہو جاتی شہباز شریف بھی دوبارہ آئے گا اور میں بھی دوبارہ آئوں گا۔ وزیراعظم کے خطاب کے دوران سیلاب متاثرین نے احتجاجی پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر امداد ی سامان کی تقسیم میں پارٹی بازی بند کرو، پنجاب ڈوب گیا نواز شریف کہاں ہو، انسانوں کے لئے راشن اور مویشیوں کے لئے چارہ دو کے نعرے درج تھے۔ میاں محمد نواز شریف جب متاثرین کو ان کی بحالی کے حوالے سے یقین دہانی کرا رہے تھے تو متاثرین جھوٹ ہے جھوٹ ہے کے نعرے لگا رہے تھے۔

ہاتھوں سے اشارے کر رہے تھے۔ وزیراعظم نے کہا کیا آپ تک میری آواز نہیں پہنچ رہی؟ یہاں کے متاثرین سیلاب کے لئے وزیر اعظم کی طرف سے اپنے خطاب میں مالی امداد نہ ہونے پر متاثرین نے شدید احتجاج کیا اور گو نواز گو کے نعرے لگائے۔ متاثرین کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب صرف ہماری بے بسی کا تماشا دیکھنے کے لئے آتے ہیں، وزیراعظم کے جانے کے بعد متاثرین نے احتجاج میں تیزی کر دی اور موٹر وے بلاک کر دی جسے پولیس نے بمشکل منتشر کیا۔ وزیراعظم سیال موڑ آئے تو پی ٹی آئی کے ورکروں نے نعرے بازی کی۔ یہ صرف سرگودھا کا واقعہ ہی نہیں بلکہ سیلاب متاثرہ جس علاقے میں جائیں حکومتی بے حسی نظر آتی ہے ،وزیر اعلیٰ پنجاب دورہ کرتے ہیں تو انتظامیہ فورا سے پہلے پہنچ جاتی ہے۔

میڈیکل کیمپ لگ جاتے ہیں ،ڈاکٹر بیٹھ جاتے ہیں ،دوائیاں پہنچ جاتی ہیں،چاولوں کی دیگیں بھی پہنچا دی جاتی ہیں،وزیر اعلیٰ کے سامنے سب اچھا کی رپورٹ اور جب شہباز شریف واپس جاتے ہیں تو اس علاقے میں سے سب کچھ غائب ہو جاتا ہے،متاثرین کے لئے آنے والا کھانا لیگی کارکنوں کے پیٹ میں چلا جاتا ہے ،باقی سامان بھی ہڑپ کر لیا جا تا ہے اور سیلاب متاثرین اپنی بے بسی کا ماتم کرتے رہتے ہیں ۔ضلع منڈی بہائو الدین کی شمالی حدود دریائے چناب اور جنوبی حدود دریائے جہلم سے ملتی ہیں دونوں دریائو ں نے آغازسے اختتام تک پورے ضلع کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اسی وجہ سے سیلابی پانی سے ضلع کے بے شمار دیہات سیلاب کی نذر ہو جاتے ہیں۔

River Chenab

River Chenab

دریائے چناب،قادرآباد بیراج اور دریائے جہلم پر رسول بیراج ہیں ان دونوں بیراجوں کی حفاظت کیلئے حفاظتی بند تعمیر کئے گئے ہیں جو ہنگامی حالات میں بارود سے اڑاکر بیراج محفوظ کر لئے جاتے ہیں۔تین ستمبر سے شروع بارشوں اور بھارت کی طرف سے خلاف توقع پانی چھوڑنے پر تاریخ میں پہلی دفعہ ہیڈقادرآباد سے نولاکھ 74ہزار کیوسک پانی گزر ا ہے۔ دریائے چناب میں سیلابی ریلا سے موضع سعداللہ پور سے لے کر موضع بھیرووال تک سینکڑوں دیہات زیرِآب آگئے جس سے دھان کی فصل بالکل تباہ ہو گئی۔ بے شمار مویشی پانی کی نذر ہوگئے۔کروڑوں مالیت کے فش فارمز پانی میں بہہ گئے۔حالیہ سیلاب میں حکومت کی طرف سے قبل ازوقت منصوبہ بندی نہ کرنے کی وجہ سے ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ جس پر پورا علاقہ سراپا احتجاج ہے۔اسی طرح ضلع منڈی بہائوالدین کی جنوبی حدود دریائے جہلم کا پانی رسول بیراج سے چھ لاکھ کیوسک گزرا ہے۔

اس سیلابی پانی سے موضع رسول سے لے کر ملکوال شہر تک ملحقہ سینکڑوں دیہات میں بھی سیلابی پانی سے دھان کی فصل ،مال مویشی ،فش فارمز اور مکانات بہہ جانے سے ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔جس کے ازالے کیلئے حکومت بے بس نظر آرہی ہے۔ مذکورہ دریائوں میں ہر سال بھارت کی طرف سے پانی چھوڑنا معمول بن چکا ہے عوامی حلقوں نے مطالبہ کیا ہے کہ چھوٹے ڈیم تعمیر کر کے ملک کو بچایا جاسکتا ہے۔ حالیہ سیلاب میں ضلعی انتظامیہ پاک فوج اور ریسکیو 1122، فلاح انسانیت فائونڈیشن نے عوام کو بچانے کیلئے بھرپور کردار اداکیا۔فلاح انسانیت فائونڈیشن پاک فوج کے بعد واحد وہ رفاہی ادارہ ہے جو سیلابی پانی میں گھرے لوگوں کو کشتیوں کے ذریعہ نکال رہا ہے۔ستر ہزار کی آبادی پر مشتمل شہری علاقہ رحمت پورہ میں نالہ ایک کا پانی پانچ رو زگزر جانے کے باوجود بھی نکالا جا سکا اور نہ ہی علاقہ میں حکومتی امدادی سرگرمیاں شروع ہوسکی ہیں جس کے خلاف خواتین نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔

رحمت پورہ برساتی نالہ کے سیلابی پانی کی وجہ سے علاقہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔متاثرین سیلاب کی نہ تو ممبران اسمبلی نے کوئی مدد کی ہے اور نہ ہی ضلعی انتظامیہ یہاں کوئی ریلیف آپریشن شروع کرسکی ہے۔ علاقہ مکینوں کے مطابق سیلاب کے پانی نے علاقہ میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے۔ گھروں میں فاقہ کشی ہے۔ احتجاج کرنے والی خواتین کا کہنا تھا کہ لوگ پریشان ہیں اور شہری علاقہ میں رہنے کے باوجود حکومتی عدم توجہی کا شکار ہیں۔ چپراڑ اور بجوات کے درجنوں دیہات کے پانچ سو سے زائد مکان مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔ فصلیں، مویشی اور قیمتی گھریلو سامان سیلاب بہا لے گیا۔ پانی نے رابطہ سڑکوں کو بھی نہ چھوڑااور بہا لے گیا۔

Election

Election

علاقہ مکین کھلے آسمان تلے بے سر و سامانی کی حالت میں بھوکے پیاسے حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ حکومت جلد از جلد ان کے علاقوں میں بحالی کا کام شروع کرے اور فوری طور پر سر چھپانے کیلئے خیمے فراہم کئے جائیں۔ اگر حکومتی بے حسی کا یہی عالم رہا اور صرف ۔۔۔گا۔۔گی۔۔۔گے ۔۔چلتا رہا تو پھر آئندہ الیکشن میں کم از کم سیلاب متاثرین یہ کہنے پر مجبو ر ہوں گے کہ ہم آپ کو ووٹ دیں ۔۔۔گے۔۔۔لیکن تب اگر مشکل وقت میں ہماری مدد کی ہوتی۔حکومت کو چاہئے کہ سیلاب متاثرہ علاقوں میں مقامی افراد کی کمیٹیاں بنا کر امدادی کام کیا جائے تا کہ صرف ووٹروں کی امداد والا سلسلہ ختم ہو اور سب تک حکومتی امداد پہنچے۔

تحریر:محمد عاصم اشفاق