وی آئی پی کلچر اور عوامی مزاحمت

VIP Culture

VIP Culture

تحریر : اقراء جمیل

ایک زمانہ تھا کہ پی آئی اے کا شمار دنیا کی بہترین ائیر لائنوں میں ہوتاتھا۔”باکمال لوگ لاجواب پرواز“ پی آئی اے کا سلوگن تھا۔ اسی طرح ریلوے بھی ایک قابل رشک ادارہ تھا۔لوگ ریلوے کے سفر کو ترجیح دیتے تھے۔رفتہ رفتہ ریاستی ادارے انحطاط پذیرہوتے گئے۔ایک سٹڈی کے مطابق اوسط درجے کے مفاد پرست لوگ کلیدی منصبوں پر فائز ہونے لگے۔ سیاست تجارت بنے لگی۔ دوست نوازی اور مفاد پرستی نے ریاستی اداروں کو تباہ کر کے رکھ دیا۔پاکستان کا آئین ہر شہری کو مساوی حیثیت دیتا ہے۔اسلام بھی مساوات کا مذہب ہے۔ریاست مدینہ کا درس دینے والے اگر قائداعظم کے ریاستی قوانین کی پاسداری کریں تو یہ ہی کافی ہے۔
`
قائداعظم وی آئی پی کلچر کیخلاف سخت قوانین کے حامی تھے۔اور جب زیارت سے کراچی پہنچے تو ائیرپورٹ سے گورنر جنرل ہاؤس جاتے ہوئے اْنکی ایمبولینس خراب ہو گئی۔اْنہوں نے شدید گرمی میں ڈیڑھ گھنٹہ دوسری گاڑی کیلئے سڑک پر انتظار کیا۔کسی شہری کو یہ خبر نہ ہو سکی کہ اْن کا محسن قائد سڑک پر زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے۔
ہمارے موجودہ حکمران سیاسی قد کاٹھ میں قائداعظم کے پاؤں کی خاک برابر بھی نہیں ہیں مگر جب چمکتی گاڑیوں کے کارواں کے ساتھ نکلتے ہیں اور اپنے ہی ووٹروں کے راستے بند کر دیتے ہیں۔انکی شان وشوکت مغل شہزادوں اور بادشاہوں سے بھی کہیں ذیادہ ہے۔جس سماج میں عوام ظلم و نا انصافی اور لاقانونیت کو برداشت کرنے لگے وہ سماج زوال پذیر ہوجاتا ہے۔سماج کو سنوارنے اور نکھارنے کی ذمہ داری عوام پر ہی عائد ہوتی ہے۔عوام اگر وی آئی پی کلچر کوبرداشت کرنا چھوڑ دے تو یہ کلچر اپنی موت آپ ہی مر جائے گا۔

دنیا کے جمہوری ملکوں میں حکمران عوام کے راستے روکنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے اور پاکستان میں ریاست مدینہ کا نعرہ لگانے والے اشرافیہ نے جمہوریت کا مذاق بنا دیا ہے۔عوام اگر متحد ہوکرانکے سامنے کھڑے ہو جائیں تو کبھی کوئی مریض ایمبولینس میں تڑپ کر نہیں مرے گا، کوئی بھی گھنٹوں گرمی میں سڑکوں پر ذلیل نہیں ہو گا
قتیل شفائی نے درست کہا تھا۔

”دْنیا میں قتیل اْس سامنا فق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا“

Protocol

Protocol

برطانیہ کا شمار دْنیا کے امیر ترین ملکوں میں ہوتا ہے اس کا وزیرارعظم چاربیڈروم کے گھر میں رہتا ہے اورکسی پروٹوکول کے بغیر باہر نکلتا ہے عام شہریوں کی طرح سفر کرتا ہے جبکہ پاکستان ایک غریب اور مقروض ملک ہے اس میں گورنر ہاؤس،ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس کا کنالوں رقبے پر مشتمل ہونے کا کیا جواز ہے۔وسیع وعریض گھر اور دفاتر جمہوریت کے سراسر منافی اوربادشاہت کی علامت ہے۔ جنھیں عام آدمی کے استعمال میں لایا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔

تحریر : اقراء جمیل