ووٹنگ مشین اور تارکین وطن

Voting Machine

Voting Machine

تحریر : ممتاز ملک۔ پیرس

ہر روز ٹی وی پر بیٹھے حکومتی اور غیر حکومتی اراکین کا تماشا لگا رہتا ہے آج کل تماشے کا موضوع ہے الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر ووٹ کاسٹ ہونے کا حق تارکین وطن کو دیا جا رہا ہے۔ سو اس کی مخالفت میں اپوزیشن اپنا بینڈ بجاتی ہے تو حکومت اپنا ڈھول پیٹتی ہے۔ لیکن مجال ہے کہ کوئی کام کی اور مطلب کی بات پر کوئی مناسب نقطہ نظر پیش کر پایا ہو۔ وہ بات جو مجھ جیسی عام سی تعلیم و عقل رکھنے والی کو بھی سمجھ میں آ جاتی ہے وہ ان عالم فاضلین کی زبان پر کیوں نہیں آ رہی۔ اس لیئے اپنی رائے اسی موضوع پر دینا مجھے ضروری لگا۔ ہو سکتا ہے کسی کے دل میں خدا کا خوف بیدار ہو جائے اور کوئی صاحب اختیار اس پر غور فرمانے کی زحمت فرما لے۔

ویسے تو مشین کے ذریعے ووٹنگ تارکین وطن پاکستانی عوام کے لیئے استعمال ہونے جا رہی ہے ، یہ بہت اچھی بات ضرور ہوتی اس صورت میں جب سو فیصد پاکستانی تعلیم یافتہ ہوتے ۔ اور اس مشین کے بلکہ اپنے ووٹ کے حق کو اہم سمجھتے اور اس کی افادیت سے آ گاہ ہوتے ۔ امریکہ میں ہو سکتا ہے کہ تارکین وطن کو یہ سہولت ملے تو اس کی افادیت زیادہ ہو وہ بھی تب جب ہمارے پاکستانی سفارت خانوں نے دھڑا دھڑا غیر پاکستانوں کو بھی پاکستانی شناختی کارڈز یا پاسپیورٹ دھوکے سے بے ایمانی سے نہ بیچے ہوتے ۔

کیا ہمارے سفارتخانوں میں ایسی چوریاں اور دو نمبر دستاویزات بنانے کے کیسز کبھی سامنے نہیں آئے؟ ۔ ایسے میں وہ بھارتی افغانی اور دوسری قومیتوں کے لوگ اس ووٹنگ کے حق کو پاکستان میں پاکستانی مفادات کے خلاف کام کرنے والے لوگوں کو لانے کی کوشش نپیں کرینگے؟ جبکہ ایسی دستاویزات میں اس بڑے پیمانے پر ہیرپھیر اور ڈاکہ زنی کی ہی اس مقصد سے جاتی ہے؟ دوسرا نقطہ ہمارے ہاں یورپ میں مقیم پاکستانیوں کی اکثریت جاہل یا ان پڑھ لوگوں پر مشتمل ہے ۔ جو کہ جیب میں ڈیڑھ ہزار یورو کا موبائل تو رکھتے ہیں لیکن بڑی شان سے محفل میں بتاتے ہیں کہ بھائی مجھے تو میسج کرنا بھی نہیں آتا۔

ایسے افراد کو جب ووٹ کا حق دینا ہو تو پچھلے کچھ عرصے میں ان کے انٹرا پارٹی الیکشن کی دھاندلیوں کو ہی مثال بنا لیجیئے۔ جہاں اکثر ممالک میں بااختیار اور کھڑپینچ لوگوں کے سوسو دو دوسو لوگوں کے کارڈرز سے بذات خود ووٹ کاسٹ کیا اورگنٹی پو گئی اس ووٹر کے کھاتے میں جس کے فرشتوں کو بھی علم نہیں کہ اس کا ووٹ کس امیدوار کے حق میں کاسٹ کیا جا چکا ہے۔

ایسے میں بائیس کروڑ وہ عوام جو براہ راست اپنے ملک کے حالات سے متاثر ہو رہے ہیں ان کے فیصلوں پر اس طرح سے واردات کرنا کیا ایک اورظلم عظیم نہیں ہو گا؟ محض کرسی سے چپکے رہنے کے لیئے اپنی مرضی کے قوانین بنوانا اور اپنی مرضی کے لوگوں کو اختیارات دینا پھر نئے نئے شوشے بغیر کسی قومی ڈیبیٹ کے چھوڑ دینا آخر کب تک ۔۔۔ کب تک ہر حکمران سابقہ حکمران سے بڑا ڈاکو بننے کی روش کو برقرار رکھے گا؟ خدا کے لیئے اپنی عمروں کا ہی لحاظ کر لیجیئے ، اپنی کوئی عزت ہی بنا لیجیئے۔

کوئی دو چار اچھے کام اس ملک کے مفادات کے مطابق کر کے ۔ اس کرسی پر آنے والے ہر شخص نے خود کو خدا سمجھا ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اس ملک کی عزت اور معیشت سے کھیلنے والے کو نہ کبھی سکون حاصل ہو سکا اور نہ ہی عزت۔ وہ ہمیشہ عبرت کا نشان ہی بنے ہیں ۔ بزرگوں نے سچ ہی کہا تھا کہ بیٹا دولت تو کنجر بھی بہت کما لیتے ہیں لیکن عزت کمانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اس لیئے وہ کماو جو ہر ایک کے بس کی بات نہیں اور جو اس دنیا سے جاتے وقت بھی تمہارے ساتھ ہی جا سکے۔

Mumtaz Malik

Mumtaz Malik

تحریر : ممتاز ملک۔ پیرس