دنیا کا غریب ترین صدر 100 شامی بچوں کا کفیل بن گیا

President

President

اقوام متحدہ (جیوڈیسک) جنوبی امریکا کے غریب اور پسماندہ ملک یوراگوئے کے سفید پوش اور غریب صدر نے شام میں خانہ جنگی سے متاثرہ 100 یتیم بچوں کی کفالت اپنے ذمہ لیتے ہوئے ان کے لئے اپنے گھر کے دروازے کھول دیے ہیں۔

شامی پناہ گزینوں کی دیکھ بھال سے متعلق اقوام متحدہ کے ہائی کمشن کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یوراگوئے کے صدر خوسے موجیکا نے شام میں جنگ کے دوران یتیم ہونے والے ایک سو بچوں اور بچیوں کی کفالت کا فیصلہ کیا ہے۔

صدر موجیکا کی ہدایت کے مطابق ہر یتیم بچے کے ساتھ اس کا ایک بالغ قریبی عزیز بھی یواراگوئے جائے گا جہاں ان تمام بچوں اور ان کے اقارب کو موسم گرما میں صدر کے زیر استعمال رہائش گاہ میں رکھا جائے گا۔ خیال رہے کہ یوراگوئے کے صدر خوسے موجیکا کو دنیا کا غریب ترین صدر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

موجیکا کی ماہانہ تنخواہ تو 12 ہزار 500 ڈالر ہے لیکن وہ اپنی آمدن کا صرف 10 فیصد اپنی ذات پر صرف کرتے ہیں اور باقی رقم غریبوں، یتیموں، بیوائوں اور ناداروں کی کفالت کے لئے خیراتی اداروں کو دے دی جاتی ہے۔ موجیکا مارچ 2010ء میں یوراگوئے کے صدر منتخب ہوئے۔

صدر بننے کے بعد انہوں نے کسی پرتعیش رہائش گاہ یا ایوان صدر منتقل ہونے کے بجائے شہر سے فاصلے پر اپنے فارم ہائوس میں رہائش اختیار کی۔ دنیا کے دیگر صدور کی برعکس موجیکا کسی قسم کے سیکیورٹی پروٹوکول سے بالکل بے نیاز ہیں۔ یوراگوئے کی خاتون اول صدر موجیکا کہ اہلیہ بھی اپنے شوہر نامدار کی طرح سادہ خاتون ہیں۔

شام کے یتیم بچوں کی کفالت کی ذمہ داری اٹھانے سے متعلق انہوں نے کہا کہ اس اقدام سے عالمی برادری کو بھی شام کے مفلوک الحال بچوں کی بہبود کے لئے موثر اقدامات کی ترغیب دینا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صدر موجیکا نے پہلے یہ سوچا تھا کہ شامی بچوں کی کفالت کے بارے میں پارلیمنٹ سے اجازت لی جائے مگر پھر انہوں نے خود ہی فیصلہ کر لیا۔

صدر موجیکا کا یہ جملہ دنیا کے عیش پرست حکمرانوں کے لئے ایک پیغام ہے کہ “جو شخص دولت کے لئے زندہ رہنا چاہتا ہو اس کی سیاست میں کوئی جگہ نہیں ہے”۔ موجیکا اپنے اس قول کی عملی مثال ہیں۔ صدر منتخب ہونے کے بعد ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ اب بھی اسی طرح سادہ زندگی بسرکرتے، اپنے پرانے مکان میں رہتے اور عام لوگوں کے ساتھ میل جول رکھتے ہیں۔ انتخابات میں انہیں ووٹ دینے اور صدر بنانے والوں میں بھی اکثریت غریبوں ہی کی ہے۔ اس لئے وہ خود کو غریبوں کا صدر بھی کہتے ہیں۔