حدیث شریف ( ترجمہ ) ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہاری طرح جلدی جلدی کلام نہیں فرماتے تھے بلکہ آپ بالکل صاف اور واضح بات چیت کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر بات جدا جدا ہوتی تھی جسے آپ کے پاس بیٹھنے والا اچھی طرح ذہن نشین کر لیتا تھا۔
توضیح حدیث امام المحدثین حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ علیہ اس بات میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لوگوں کیساتھ ہم کلامی کی کیفیت اور انداز کو بیان فرما رہے ہیں۔ ہر انسان کی عظمت کا اندازہ اس کی گفتار سے ہی لگایا جاتا ہے۔
آدمی جب تک خاموش رہے اسوقت تک کوئی بندہ اس کے بارے کوئی رائے قائم نہیں کر سکتا۔ لیکن بندہ جب کوئی کلام کرتا ہے تو اس کا کلام ہی اس کے معیار کا عکاس ہوتا ہے۔
حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ علیہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گفتار اور طرز کلام کے باب میں تین احادیث بیان فرمائی ہیں اور سب سے پہلی حدیث ام المومنین سیدہ کائنات حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرمغز اور پر حکمت فصیح و بلیغ گفتگو اہل مکہ نے نصف صدی سے زیادہ سنی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اہل مدینہ بھی دس سال تک زبان دہن رسالت کی حلاوتوں سے سرشار ہوتے رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسطرح پورا عرب حضور علیہ السلام کی فصاحت و بلاغت کا معترف تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا یہ یارِ غار رسول، خلیفہ اول بلافصل حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لخت جگر اور حرم رسول سے مشرف و ممتاز تھیں۔ بیوی اپنے شوہر کی جلوت و خلوت کے تمام تر رازوں اور معاملات سے واقف ہوتی ہے۔
انسان اوروں کے سامنے تو تکلف سے وقت گزار سکتا ہے مگر جب اپنے گھر میں ہوتا ہے تو تمام تر تکلفات سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور بیوی اپنے خاوند کی خلوت کے تمام معاملات کو بخوبی دیکھ سکتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کئی آدمی باہر والوں کے لیے تو ہیرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اپنی بیوی کے سامنے زیرو ہوتے ہیں۔ اگر لوگ اسکے سامنے اسکے خاوند کی تعریف کریں بھی، تو وہ کہتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہنے دو، مجھ سے زیادہ اس کو کون جانتا ہے۔ مگر قربان جائیں حضور سرور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس پر، جن کے حسن اخلاق، حسن کردار اور حسن گفتار کی گواہی انکے گھر والی دے رہی ہیں۔
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بارگاہ میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حاضر ہوئے اور آپ اس وقت نماز میں مصروف تھیں۔ چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ آپ کے دوران نماز ہی جلدی جلدی کوئی بات کہہ کر چلے گئے۔
جب سیدہ پاک نے نماز ختم کی اور سوچنے لگیں کہ جناب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کیا کہہ گئے ہیں؟ آپ کو کوئی بات سمجھ نہ آ سکی۔ اس وقت آپ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے منفرد کلام کے متعلق یہ اظہار خیال فرمایا اور کہنے لگیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کیطرح لگاتار اور تیز تیز گفتگو نہیں فرماتے تھے بلکہ آپکی گفتگو میں اک وقار اور ٹھہراؤ تھا۔ وہ کلام اتنا صاف، واضح اور اتنا پرسکون ہوتا کہ سننے والے کو آپ کا کلام اور فرمان حفظ ہو جاتا۔
دوسری روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارے آقا و مولا تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محفل میں موجود ہر شخص کی ذہنی اور فکری سوچ کو مدنظر رکھ کر بڑا فصیح اور بلیغ کلام ارشاد فرماتے اور آپ اپنے کلام کو مختلف انداز و مترادفات کیساتھ تین مرتبہ دھراتے تھے تاکہ مجمع میں اعلیٰ، اوسط اور ادنیٰ فکر وفہم والا ہر شخص اپنی ذہنی استعداد کے مطابق بات کو خوب سمجھ لے۔
چونکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی حیثیت ایک مبلع اور شارع کی تھی لہٰذا ایسا انداز اختیار کرنا ضروری تھا جو سب کیلئے کلام نبوی کو سمجھنا آسان کر دے۔
Mohammad PBUH
یہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی امت پر کمال درجے کی شفقت و مہربانی تھی کیونکہ انہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے احادیث رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے راوی بن کر آگے ساری کائنات کیلئے مشعل ہدایت بننا تھا۔
اگر آپ بھی لوگوں کی رعایت نہ کرتے اور تیز تیز گفتگو فرماتے تو کوئی تو سن کے صحیح سمجھ لیتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کوئی مترود ہی رہ جاتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا نتیجہ یہی نکلتا کہ جو کسی کی سمجھ میں آتا وہ وہی بیان کر دیتا۔ اسطرح سلسلئہ احادیث میں ایک بہت بڑے اضطراب اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا۔
حضرت امام ابن حجر رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ ( ترجمہ ) یعنی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ساری کائنات سے بڑھ کر فصیح واللسان، شیریں بیان اور انتہائی حاضر جواب تھے۔ آپکا کلام اس قدر شیریں، واضح اور پرتاثیر تھا کہ جب آپ کلام کرتے تو کوئی دل متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا۔
شارحین و محدثین نے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بالخصوص ایسا کلام اسوقت فرماتے تھے جب شمع رسالت کے گرد بہت کثرت سے پروانے جمع ہوتے تاکہ سب کے سب خوب سن لیں اور اچھی طرح سمجھ لیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن عام حالات میں اسطرح کلام کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔