افغان حکومت اور طالبان امن مذاکرات جاری رکھنے پر متفق

 Taliban Negotiations

Taliban Negotiations

قطر (اصل میڈیا ڈیسک) قطر میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت کے بعد کہا گیا ہے کہ فریقین مزید امن مذاکرات کے لیے پر عزم ہیں۔ دونوں اس کوشش میں ہیں کہ ان میں کوئی سیاسی مفاہمت طے پا جائے۔

افغان حکومت کے نمائندوں اور طالبان کے درمیان سفارتی مذاکرات قطر کے دارالحکومت دوحہ میں 17 جولائی سنیچر کو شروع ہو ئے تھے اور 18 جولائی اتوار کے روز ختم ہوئے۔ اس کے اختتام پر فریقین نے کہا کہ وہ مزید امن بات چیت کے لیے پر عزم ہیں۔

بات چیت کے اختتام پر فریقین کی جانب سے ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا ہے، ”جب تک اس سلسلے میں کوئی معاہدہ طے نہیں پا جاتا اس وقت تک وہ اعلی سطح پر مذاکرات جاری رکھیں گے۔” فریقین نے ملکی سطح پر، ”انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امداد فراہم کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔”

طالبان کے ترجمان نے اتوار کے روز قطر کے ٹی وی چینل الجزیرہ سے بات چیت کرتے ہوئے وضاحت کی کہ انہوں نے بات چیت کے دوران جنگ بندی کی کوئی پیشکش نہیں کی ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا، ”ہم نے دوحہ بات چیت کے دوران تین ماہ کے لیے جنگ بندی جیسی کوئی تجویز پیش نہیں کی۔”

مذاکرات کی نگرانی کرنے والے ایک سینیئر قطری افسر مطلق القحطانی کا کہنا تھا کہ فریقین نے، ”عام شہریوں کی ہلاکت سے بچنے کے لیے کام کرنے پر تو اتفاق کیا ہے تاہم جنگ بندی پر کوئی معاہدہ نہیں ہو سکا۔”

جب سے امریکا اور نیٹو نے افغانستان فوجی انخلا کا اعلان کیا اور اس پر عمل کرنا شروع کیا ہے اسی وقت سے افغانستان میں تشدد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس دوران لڑائی میں طالبان نے کئی علاقوں میں پیش قدمی کی ہے اور بہت سے علاقوں پر کنٹرول بھی حاصل کر لیا ہے۔ طالبان نے ملک کے شمال کے دفاعی حکمت عملی کے اعتبار سے کئی اہم سرحدی علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے افغانستان میں اس ماہ ایک سروے کیا ہے جس کے مطابق طالبان نے ملک کے نصف سے زیادہ تقریبا ً400 اضلاع پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی طالبان نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اس تنازعے کا سیاسی حل چاہتے ہیں اور بات چیت جاری رکھیں گے۔

امریکی صدر نے گزشتہ اپریل میں افغانستان سے گیارہ ستمبر تک مکمل انخلا کا اعلان کیا تھا اور اب تک تقریباً نوے فیصد انخلا مکمل ہو چکا ہے۔ تاہم طالبان کی پیش قدمی سے طرح طرح کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ افغانستان ایک بار پھر طالبان کے ہاتھوں میں چلا جائے۔