آذربائیجان (اصل میڈیا ڈیسک) ایران اور اس کے پڑوسی ملک آذربائیجان کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کا کہنا ہے کہ ان کا ملک قفقاذ کے خطے میں ‘جیوپولیٹیکل تبدیلیاں‘ برداشت نہیں کر ے گا۔
ایران وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے بدھ کے روز ماسکو میں اپنے روسی ہم منصب سیرگئی لاوروف کے ساتھ ملاقات میں ایران کے ہمسایہ ملک آذربائیجان پر تنقید کی۔ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ آذربائیجان کے فوجی معاہدوں اور ایران کی شمالی سرحد کے قریب حالیہ دنوں میں ہونے والی فوجی مشقوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا، ”ہم کسی جیوپولیٹیکل تبدیلی اور قفقاذ کے نقشے میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کو برداشت نہیں کریں گے۔ ہمیں اس خطے میں دہشت گردوں اور صیہونیوں کی موجودگی پر شدید تشویش ہے۔”
آذربائیجان نے گزشتہ ہفتے ایران کی طرف سے فوجی مشقوں کے بعد حال ہی میں ترکی کے ساتھ مل کر فوجی مشقیں کی تھیں۔ امیر عبداللہیان کا تاہم کہنا تھا کہ ایران نے صرف ایک مرتبہ فوجی مشق کی اور اس نے سفارتی ذرائع سے اس کا بہت پہلے ہی اعلان بھی کر دیا تھا۔
ایرانی خبر رسا ں ادارے مہر نیوز کے مطابق وزیر خارجہ کا کہنا تھا، ”ایران کی فوجی مشقیں ملک کے اندر اور صرف ایرانی مسلح افواج نے کی تھیں اور ان کا مقصد خطے میں امن، دوستی اور سکیورٹی کا پیغام دینا تھا۔”
ایران اور اس کے شمالی پڑوسی ملک کے مابین کشیدگی عروج پر ہے۔ایران میں آذری سب سے بڑی اقلیت ہیں اور باکو کی جانب سے مخالفت تہران کے لیے مسائل پیدا کر سکتی ہے۔
آذربائیجان ایران کے حریف ملک ترکی کا قریبی حلیف بھی ہے۔ باکو دفاعی ساز و سامان بالخصوص ڈرونز کے لیے اسرائیلی ٹیکنالوجی پر انحصار کرتا ہے۔ آذربائیجان نے گزشتہ برس آرمینیا کے ساتھ جنگ میں اسی ٹیکنالوجی پر بڑی حد تک بھروسہ کیا تھا اور آرمینیا میں ارتسخ کے نام سے معروف نگورنو کاراباخ کے متنازعہ علاقہ مختصر جنگ کے بعد دوبارہ اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا۔
باکو افغانستان میں دو دہائیوں تک جاری رہنے والی جنگ کے دوران لاجسٹکس کا ایک بڑا مرکز بھی رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس شہر نے امریکا اور روس کے اعلیٰ فوجی کمانڈروں کے درمیان، بالخصوص ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں، اعلیٰ سطحی ملاقاتوں کی میزبانی بھی کی تھی۔
ایرانی وزیر خارجہ نے اپنے روسی ہم منصب کے ساتھ ایرانی جوہری معاہدے پر عمل درآمد بحال کرنے کے امکانات پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
انہوں نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ بات چیت اب تیزی سے آگے بڑھے گی۔ ”میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم اب اس معاملے میں مشاورت کو حتمی شکل دے رہے ہیں اور ویانا میں جلد ہی مذاکرات بحال ہو جائیں گے۔”
حسین امیر عبداللہیان نے تاہم ایران کے اس موقف کا ایک بار پھر اعادہ کیا کہ امریکا کو کم از کم بعض ایسے ایرانی اثاثے بحال کر دینا چاہییں، جو واشنگٹن کی طرف سے ایران پر عائد کردہ پابندیوں کے باعث منجمد ہیں۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2018 میں واشنگٹن کو ایرانی جوہری معاہدے سے یک طرفہ طور پر الگ کر لیا تھا، جس کے بعد تہران پر مزید پابندیاں بھی عائد کر دی گئی تھیں۔
ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں شامل دیگر ممالک چین، فرانس، جرمنی، روس اور برطانیہ کو امید ہے کہ امریکا اس معاہدے میں دوبارہ شامل ہو جائے گا۔ ایران تاہم اس معاہدے کے لیے بہتر شرائط کا مطالبہ کر رہا ہے جب کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے اس حوالے سے اب تک کوئی واضح اشارہ نہیں دیا۔