شاہی قلعہ کی حالت

Dr. Tahir ul Qadri

Dr. Tahir ul Qadri

ملک کا درجہ حرارت سیاسی طور پر اور موسم کے لحاظ سے گرم ہوتا جارہا ہے پچھلے دنوں ڈاکٹر طاہرالقادری کی آمد آمد تھی تو پولیس نے مسلح غنڈہ گردی کرتے ہوئے جن رکاوٹوں کو ختم کرتے ہوئے 19لاشیں گرائی وہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی آمد کے بعد دوبارہ رکھ دی گئی ہیں مگر جو لوگ اس دنیا سے چلے گئے ہیں انکا کون کس کے ہاتھوں پر تلاش کیا جائیگا جس طرح حکومت نے قادری صاحب کی آمد پر سب کچھ کنٹرول کرلیا تھا۔

کیا رکاوٹیں اٹھانے پر پولیس کو بندے مارنے کا اختیار دینے کی بجائے بات چیت کے زریعے اس مسئلہ کو بھی ختم کیا جاسکتا تھا مگر پتہ نہیں بٹوں کی اس حکومت میں کون کون گلو بٹ شامل ہیں جو ڈنڈے لیکر عوام کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں بات ہو رہی تھی موسم کی تو گذشتہ روز لاہوبارش کی وجہ سے لاہور کا موسم بڑا پیارا تھا میں بھی شاہی قلعہ چلا گیا مگر جاتے ہوئے جو مشکلات اٹھانی پڑی وہ بڑی ہی تکلیف دہ تھی کوئی راستہ سیدھا اس طرف کو نہیں جاتا اورپھر وہاں جاکر جن جن حکومتی کارناموں کا نکشاف ہوا وہ زرا آپ لوگ بھی ملاحظہ فرما لیں مگر سب سے پہلے یہ بھی لکھتا چلوں کہ مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت نے جہاں بہت سے اور اداروں اور شخصیات کو بے توقیر کرنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے وہی پر پاکستان کے اثاثہ جات کو بھی بری طرح تباہ و برباد کرنے کا کام شروع کردیا ہے۔

میرٹ سے ہٹ کر اور اپنوں کو نوازنے کی پالیسی نے ملک کو پستی کی طرف دھکیل رکھا ہے جو سرکاری ملازم جس کام سے جتنا زیادہ لاعلم اور عوام دشمن ہوگا اسے ہی ڈھونڈ کر اس محکمہ کا سربراہ لگا دیا جاتا ہے آپ مختلف اداروں کے سربراہوں اورپنجاب کے شہروں کے ڈی سی اوز کو دیکھ لیں جن کوصرف میرٹ سے ہٹ کر اس لیے لگایا گیا ہے کہ وہ وہاں کے اراکین اسمبلی کو قابو میں رکھیں اور اپنے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر عوام کی بے عزتی کرتے رہیں اب آپ حکومت کا نیا کارنامہ بھی ملاحظہ فرمالیںکہ انہوں نے قومی ورثہ کو بھی شدید نقصان پہنچانے کا کام شروع کردیا ہے۔

شاہی قلعہ لاہور کوچار سرکاری محکموں کے درمیان سینڈوچ بنادیا گیا ڈی جی آثار قدیمہ ڈاکٹر عصمت طاہرہ کی لاپرواہی اور وال سٹی منصوبہ کے کامران لاشاری کی ناتجربہ کاری نے مغلیہ دور کے قدیم قلعہ کو تباہی سے دوچار کردیا 30جون سے قبل بجٹ ختم کرنے کے شوقین افسران نے شاہی حمام کو بھی عام مزدوروں سے تباہ کروادیاشالامار باغ ،مقبرہ جہانگیر اور شاہی قلعہ کے بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی کے باعث ان اہم مقامات کی بجلی منقطع ہو چکی ہے۔

لاکھوں روپے سے لگائے گئے واٹر کولر اور سی سی ٹی وی کیمرے خراب ہو چکے ہیں مگر کسی افسر کے کان تک جوں تک نہیں رینگی اور ایک طویل عرصہ سے افسران کی ملی بھگت سے کنٹین حاصل کرنے والے ٹھیکیدارنے بھی شاہی قلعہ کی سیر کو آنے والوں کو لوٹنے کا ٹھیکہ بھی حاصل کررکھا ہے جبکہ نئی سڑکیں بننے سے مناسب راستہ اور گاڑیوں کی پارکنگ ختم ہونے کی وجہ سے شہری اس قومی ورثہ کو دیکھنے سے محروم ہو گئے ہیں حکومت نے قومی ورثہ کی حامل ان عمارتوں کو پی ایچ اے ،آرکیالوجی ،اوقاف اور متروکہ اوقاف کے درمیان بانٹ رکھا ہے اور افسران کے درمیان جاری اختیارات کی رسہ کشی نے اس قومی ورثہ کو اسکے اصل حسن سے محروم کرنا شروع کردیا ہے۔

Shahi Qila

Shahi Qila

قلعہ کے ساتھ سڑک بنانے پر محکمہ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا ایک لمبا عرصہ دریائے راوی قلعہ کی دیوار کے ساتھ بہتا رہا تھا اور اسکی کھدائی کے دوران محکمہ آثار قدیمہ کے ماہرین کو یکسر نظر انداز کر کے قومی ورثہ کو شدید نقصان پہنچایا اگر دریائے راوی کی اس جگہ کی کھدائی کے دوران ماہرین ہوتے تو اربوں روپے کے نوادرات مل سکتے تھے مگر افسر شاہی اور ڈی جی آثار قدیمہ کی عدم دلچسی کے باعث یہ باب اب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیاقلعہ سے ملحقہ تاریخی بیگم شاہی مسجد جو اکبر بادشاہ کی بیگم مریم زمانی نے تعمیر کروائی تھی کے اردگرد قبضہ مافیا نے حکومتی آشیر باد سے قبضہ جما رکھا ہے۔

اسکی تاریخیں اینٹیں غائب ہو چکی ہیں جبکہ قلعہ کی دیوار کے ساتھ مختلف پریس اور ڈائی کٹر والوں نے بھی افسران کی سرپرستی میں قبضے جما رکھے ہیں جن کی دھمک سے قلعہ کی دیوار کی اینٹیں گرنا شروع ہوچکی ہیں قلعہ میں فوٹو گرافی کا ٹھیکہ افسران اور ٹھیکدار کی مرضی سے جان بوج کر لیٹ کیا جارہا ہے تاکی عید سے کچھ دن قبل اسے جاری کیا جائے۔

وہ تین عیدیں یہاں پر آنے والے سیاحوں کو لوٹ سکیں جبکہ ابھی محکمہ آثار قدیمہ کے افسران نے اپنے غنڈوں کو کیمرے دیکر عوام کو لوٹنے کیلیئے قلعہ کے اندر بھیج رکھا جن کی بدمعاشیوں کی وجہ سے لڑائی جھگڑے روز کا معمول بن چکے ہیں محکمہ کے ملازمین اور یہاں پر سیر کے لیے آنے والے لوگوں کی ڈھیروں شکایتیں ہیں جسے انہوں نے بھی متعدد بار حکام بالا تک پہنچایا مگر یہاں پر جو زنیر عدل تھی وہ تو کب کی غائب ہو چکی ہے اس لیے اب کسی کی بھی شنوائی نہیں ہوسکتی اور ہمارے موجودہ حکمران تو ویسے بھی اپنے وزیروں کی بھی نہیں سنتے عوام کی کیا سنیں گے۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر ۔روہیل اکبر
03466444144