اَب یہ بحث ختم ہونی چاہئے

Pakistan politicians

Pakistan politicians

مُلک کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے کیا آپ کو بھی میری طرح ایسا نہیں لگتا ہے کہ آج سر زمینِ پاکستان سیاستدانوں اور دہشت گردوں کے ناجائز اقدامات اور عزائم کے لئے اکھاڑہ نہیں بن گئی ہے سیاستدانوں کاجب جی چاہتا ہے یہ آپس میں لڑلیتے ہیں اور دہشت گردوں کو بھی میرے دیس میں اتنی آزادی حاصل ہے کہ یہ بھی جہاں چاہیں اور جب چاہیں بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ، اور خودکش حملوں سے اِنسانی خون سے اپنے ہاتھ رنگ لیتے ہیںاور اپنے مزید عزائم کی تکمیل کے خاطر پہلے سے کہیں منظم اور مربود ہوکر سرگرم رہتے ہیں، اِس میں قصور کس کا ہے آج تک کوئی اِس کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکاہے۔

کہ صرف میرے ہی دیس میں یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے آج جسے دیکھ کر انسانیت بھی اپنے کانوں کو ہاتھ لگانے لگتی ہے اور چھپنے کو کونا تلاش کرتی ہے۔ میرے مُلک میں الزام لگانا سانس لینے سے بھی کہیں زیادہ آسان ہوگیا ہے، جس کو دیکھو سب ایک دوسرے پر الزام لگانے میں اِس طرح مصروف رہتے ہیں کہ جیسے یہ اِن کا کوئی قومی فریضہ ہے، جو دوسرے پر جتنا زیادہ الزام اور بہتان لگائے گا وہ اتناہی معتبر اور محترم ہوگا، ہماری سابقہ حکومت اور اِس سے بھی پچھلی جتنی بھی حکومتیں گزری ہیں اِن سب کا بس یہی ایک کام تھا کہ اپنے پچھلوں پر الزامات کی بھر مار کرنا اور اپنی حکومتی مدت جیسے تیسے کر کے گزر جانا ہوتا تھا۔

مگر آج بدقسمتی سے گیارہ مئی کے عام انتخابات سے جو حکومت وجود میں آئی ہے، اِس کے لچھن بھی کچھ اپنے پچھلوں سے مختلف نہیں ہیں، اِس نے بھی آتے ہی اُس ہی روش پر چلنے کی ٹھان لی ہے جس پر اِس کے پچھلے چلا کرتے تھے یعنی اِس نے بھی قومی خزانہ خالی ہونے کا نعرہ لگایاہے اور غریبوں کی خون پیسے کی کمائی پر ٹیکس عائد کرکے اِسے بھرنے کا ڈھونگ رچانا شروع کر دیا ہے اِس حوالے سے موجودہ حکومت نے حالیہ بجٹ میں جنرل سیلزٹیکس کی مد میں ایک فیصد اضافہ کرکے غریبوں کو مہنگائی کے بوجھ تلے دبانا چاہا تھا مگر وہ تو اللہ بھلا کرے ہمارے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب کا جنہوں نے اِس پر فوراََ نوٹس لیا۔

Supreme Court

Supreme Court

اور یوں گزشتہ جمعے کو سُپریم کو رٹ نے بارہ جو ن کو پیش کئے جانے والے وفاقی بجٹ 2013-14 میں جی ایس ٹی میں ایک فیصد اضافے کو کالعدم قراردے دیاہے اور اَب اِس کے بعد یہ بحث بھی ختم ہو جانی چاہئے کہ جی ایس ٹی کا نفاذ قانونی تھا یا غیر قانونی اَب کیوں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے یہ اچھی طرح سے واضح کردیاہے کہ پارلیمنٹ سے بجٹ کی منظوری کے بغیر جی ایس ٹی کانفاذ غیرآئینی ہے، اور حکومت پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر کوئی ٹیکس وصول نہیں کرسکتی ہے، تو پھر وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کا کیا یہ کہنا مضحکہ خیز نہیں ہے کہ جی ایس ٹی کا نفاذ قانونی تھا، عوام نے ہمیں مینڈیٹ دیاہے۔

مجھے کوئی معیشت سے متعلق کچھ نہ سمجھائے، ملک کو ٹھیک کرنے کے لئے تکلیف دہ فیصلے کرنے ہوں گے اور(امیروں کو بچاکر غریبوں پر ٹیکسوں کی بھر مار کرے کے )ٹیکسوں کے ذریعے ہی پیسے جمع کئے جائیں گے البتہ اِن کا یہ سب کچھ کہہ لینے کے بعد یہ بھی کہنا تھا کہ سُپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں جبکہ اِن کے برعکس اپوزیشن کی جماعتیں پی پی، تحریک انصاف، متحدہ قومی موومنٹ اور جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ حکومت کو ہر حال میں سُپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کرنا ہوگا کیوں کہ جی ایس ٹی کا نفاذ غیر آئینی تھا آج یقیناسپریم کورٹ کے فیصلے سے مُلک کے غریب عوام کی فتح ہوئی ہے۔

اور سُپریم کورٹ کے اِس فیصلے سے اِن میں جینے کی امید پیدا ہوگئی ہے۔ سُپریم کورٹ کا فیصلہ یقینا ایک تاریخی اہمت کا حامل فیصلہ ہے جہاں اِس کے مستقبل قریب میں دوررس نتائج برآمد ہوں گے، تو وہیں عوام میں یہ عنصر بھی یقینا پروان چڑھے گا کہ آج مُلک میں عدلیہ آزاد ہے اور ہر غریب کے لئے بھی انصاف کے دروازے کھلے ہیں جو ماضی میں غریبوں کے لئے شائد بند کردیئے گئے تھے مگر اِس کے باوجود بھی میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ میرے مُلک کے حکمران جو غریبوں کے ہی ووٹ سے آتے ہیں، اقتدار کی مسند پر قدم رکھتے ہی اِن کی ذات میں منافقت اور جھوٹ و فریب اور مفادات کا عنصر کہاں سے غالب آجاتاہے۔

Vote

Vote

کہ یہ اُن لوگوں کے لئے ہی کیوں جلاد بن جاتے ہیں جو اِنہیں ووٹ دے کر اقتدار کی سیج تک پہنچاتے ہیں یہ اور میری طرح آ پ کے ذہن میں بھی ایسے کئی سوالات ضرور پیدا ہوتے ہوں گے مگر اِن کا کوئی جواب نہیں دے پاتا ہے کیوں کہ ہم جن سے اپنے سوالات کا جواب چاہتے ہیں اُن کے پاس ہمارے اِن سوالات کے جوابات نہیں ہوتے ہیں یا وہ دانستہ طور پر دیناہی نہیں چاہتے ہیں۔ جبکہ آج یہ حقیقت ہے کہ میرے مُلک کا ہر سیاستدان اور حکمران نیا پاکستان بنانے اور ایک نئی دنیا پیدا کرنے کا عزم تو بہت کرتا ہے مگروہ اپنے اِس عزم میں اُن غریبوں کو بھول جاتاہے، جو اِسے اِس کے خوابوں کی تعبیر کے لئے تیار کرتے ہیں۔

اور جو اِس کے ایک اشارے پر اپنا تن من اور دھن اور وہ سب کچھ جو اِن کی ذات سے نتھی ہوتے ہیں اُنہیں قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں مگر اِس کے باوجود بھی اِن غریبوں کے حصے میں احساسِ محرومی اور ٹھو کروں کے سوا کچھ نہیں آتاہے۔ دانا کہتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے میں زندگی کے اثار اور ترقی کی رفتار کا انداز لوگوں کے طرز زندگی اور معیشت سے لگایا جاسکتاہے، مگر افسوس ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے میرے ملک میں نہ کوئی ایسا معاشرہ موجود ہے جسے دیکھ کر یہ انداز لگایا جاسکے کہ یہاں کون سی تہذیب پنپ رہی ہے اور اِس میں کس انداز کی زندگی رواں دواں ہے اور اِسی طرح اِ س کی معیشت کا کیا معیار ہے۔

یہ سب کچھ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ ہم نے اغیار کی جنگ میں خود کو جھونک کر اپنا معاشرہ، اپنی تہذیب، اپنی طرز زندگی اور اپنی معیشت کا بھی بیڑا غرق کردیاہے، مگر ابھی وقت ہے کہ اگرہم آج بھی اغیارکی جنگ سے نکل جائیں تو ہمارے دہشت گردی سمیت اور بہت سے اندرونی او ربیرونی مسائل حل ہوسکتے ہیں اور ہمارا مُلک بھی ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوکر اُوج ثُریا کی اُن بلندیوں تک پہنچ سکتاہے، جس سے اغیار ہمیں روکنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اور چند کروڑ ڈالرز کی بھیک دے کرہمیں اپنی جنگ میں دھکیل کر مزہ لوٹ رہے ہیں۔

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم

azamazimazam@gmail.com