ادویات کی برآمدات پر سیمینار سے رابعہ جویری، ڈاکٹر قیصر وحید، زاہد سعید و دیگر کا خطاب

کراچی : ڈرگ ایکٹ کا سکشین12ادویات کی برآمدات میں ایک بڑی رکاوٹ بن گیا ہے اور وفاقی حکومت اورڈرگ ریکولیشن اتھارٹی پاکستان ( ڈیٰ آر اے پی ) فارماسیوٹیکل کے قوانین کو عالمی معیارکے مطابق بنائے اور عالمی ادارہ صحت اور آسیان کے فریم ورک کو اپنایا جائے جس سے نہ صرف مریضوں کو بلکہ حکومت کو بھی فائدہ ہوگا یہ بات پاکستان فارماسیوٹیکل مینو فیکچررز اسیوسی ایشن ( پی پی ایم اے ) کے سابق چیرمیں ڈاکٹر شیخ قیصر وحید اور زاہد سعید نے کہی۔ وہگزشتہ روز ای کامرس گیٹ وے کے تحت ہیلتھ ایشیاء 2013کے موقع پر ایکسپو سینٹر کراچی میں پاکستانی ادویات کی ممکنہ عالمی مارکیٹ کی تلاش اور مواقع پر سیمینار سے خطاب کررہے تھے۔ اس موقع پر ٹریڈ ڈیولپمینٹ اتھارٹی کی سکرٹری رابعہ جویری آغا ، ڈاکٹر اسما ء فیصل، لیاقت جاوید اور ڈاکٹر خورشید نظام نے بھی خطاب کیا۔ کانفرنس میں پاکستانی ، غیر ملکی مندوبین نے بھی شرکت کی ۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر قیصر وحید نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت نے افریقن ممالک کو تربیت دی ہے جس سے معیار کو جانچنے کی قابلیت بڑھ گئی ہے۔انہوں نے ڈی آر اے پی سے مطالبہ کیا کہ پاکستان میں ریگولیٹرز کی جانب سے منیو فیکچرنگ یونٹس کے جائزے کا معیار یکساں ہونا چائیے۔

اگرچہ پاکستان کی فارما صنعت نے ترقی کی ہے مگر دنیا کی برآمدات میں ہمارا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ڈرگ ایکٹ کی سکیشن 12جیسا قانون بھارت سمیت دنیاکسی ملک میں نہیں۔ اس میں عالمی معیار کے مطابق ترمیم کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ملکی ادویہ ساز صنعت کے لئے افرادی قوت تیار کرنے کا کوئی ادارہ نہیں اور ہماری یونیورسٹیاں صرف فارماسسٹ ہیدا کررہی ہیں۔جو دو ہفتے مینو فیکچررز یونٹس میں لگاتے ہیں اور انہیں ڈگری دیدی جاتی ہے۔

ایسے لوگ صنعت کی ترقی میں کوئی بڑا کردار ادا نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا اہم سوال یہ ہے کہ یورپ اور امریکہ سمیت دیگر ریگولیٹنڈ ممالک تک ہم کیسے رسائی حاصل کریں اور برآمدات سے متعلق مسائل کے لئے خصوصی شعبہ قائم کیا جائے اور ڈی آر اے پی نے گذشتہ تین ماہ میں 40کروڑ روپے فارما انڈسٹری سے وصول ہوئے ہیں لیکن سہولیات فراہم نہیں کی جارہی ہیں اورا سادارے میں افسران کی شدید کمی ہے جسکی وجہ سے فارما صنعت کے مسائل بڑھ رہے ہیں اس موقع پر زاہد سعید نے کہا پاکستان میں 688ادویہ ساز کمپنیاں ہیںجس میں 405رجسٹرڈ ہیں۔

جس میںملٹی نیشنل کے 24یونٹس شامل ہیں اور ملک کی فارما صنعت کا مجموعی سائز 220ارب روپے ہے۔ پاکستان دنیا کے ان 35ممالک میں سے ایک ہے جو اپنی مقامی ضروریات کا 90 فیصد پورا کر رہا ہے اور ملکی ادویات کی برآّمدات میں0.1فیصدسے بھی کم ہے۔ جبکہ عالمی مارکیٹ میں ہمارا شئیر دو فیصد ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ بھارت کے مقابلے میں ہماری ادویات 75فیصد سستی ہیں جبکہ ہماری لاگت ان سے 35فیصد زیادہ ہے اور گذشتہ 12سال سے ادویات کی قیمیں نہیں بڑھائی جا رہی اور ادویات کی قیمتںسی پی آئی یا اسٹیٹ بنک افراط زر کی شرح سے منسلک کی جائیں۔ زاہد سعید نے کہا ڈی آر اے کو فارماسیوٹیکل اسپکشن کنوئشن اسیکم کا ممبر ہونا چائیے۔تاکہ اس سے صنعت کو فائدہ ہو اور ہماری ڈی آر اے کے ساتھ کوئی محاذ آر ائی نہیں ہے ہمیں ملکی ترقی کے لئے مل کر کام کرنا ہوگا ۔ڈی آر اے پی کے قائم مقام چیف ایگزیکیٹو اشرف خان نے کہا کہ دوا مریض کے لئے امید اور پاکستان کے لئے سفیر حیثیت رکھتی ہے اور مقامی ادویات ساز ادارے نہ صرف ملک میں بلکہ دنیا میں اپنے برانڈ متعارف کرائیں اور قوانین کی تبدیلی سائنسی بنیادوں پر ہونی چاہیے ۔ اہم اس ضمن میں تجاویز کا خیر مقدم کریں گے۔

سکرٹری ٹی ڈی اے پی رابعہ جویری نے مقامی فارما صنعت کے کردار کو سراہا اور کہا کہ اتھارٹی ادویات کی برآمدات میں اضافے کے لئے بیروں ممالک میں وفود کے تبادلے اور ادویات کی نمائش کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ فارما صنعت نے 40لاکھ افراد کو روزگار فراہم کیا ہے اور ہم 2015 تک ہم انڈسٹری کے لئے اسٹرٹجیک پارنٹر بنا رہے ہیں جس میں پی پی ایم اے کی سفارشات بھی شامل کی جائیں گی۔ کانفرنس کے مندوبین نے بعد ازاں نمائش کا بھی دروہ کیا۔