جرمنی: کورونا پھیلانے والے قصائی خانے تنقید کی زد میں

Slaughterhouse

Slaughterhouse

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن وزیر زراعت نے بھی سوال اٹھایا ہے کہ صرف ایک کاروبار میں ہی بار بار اتنے سارے لوگ کیوں کورونا کا شکار ہو رہے ہیں۔

ٹوئنیز گروپ کا شمار جرمنی اور یورپ میں گوشت کا کاروبار کرنے والی بڑی کمپنیوں میں ہوتا ہے۔ اس ہفتے ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں کمپنی کے ایک قصائی خانے سے سات سو تیس ملازمین میں کورونا کے کیسز سامنے آئے۔ قصائی خانے میں آنے جانے کی وجہ سے علاقے میں پہلے ہی کوئی سات ہزار کے قریب لوگ قرنطینہ میں ہیں۔

آنے والے دنوں میں مزید پانچ ہزار تین سو اسٹاف کے ٹیسٹ کیے جائیں گے۔ اس کام میں پہلے مقامی امدادی تنظیمیں اور عالمی ریڈ کراس جیسے ادارے حکام کی مدد کر رہے تھے۔ لیکن اب بڑھتے ہوئے دباؤ کے باعث انہیں فوج کی مدد لینی پڑ رہی ہے۔

ان حالات کے بعد جرمنی میں گوشت کا کاروبار کرنے والوں پر تنقید بڑھ رہی ہے۔ ٹوئنیز گروپ کے مالکان سے پوچھا جا رہا کہ آخر اس کاروبار میں ایسا کیا ہے کہ قصائی خانوں میں بار بار یہ وبا پھوٹ پڑتی ہے؟

رابرٹ ٹوئنیزاس بڑی خاندانی کمپنی کے مالکان میں سے ایک ہیں۔ جمعرات کو انہوں نے کمپنی کے سربراہ اور اپنے انکل کلیمس ٹوئنیز کے نام ایک کھلے خط میں ان کے استعفے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ کمپنی اپنے ملازمین کے ساتھ جو سلوک کرتی آئی ہے اس پر انہیں اپنی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے سبکدوش ہوجانا چاہییے۔

ٹوئنیز کمپنی کے قصائی خانوں میں کورونا کا شکار ہونے والے ملازمین کی بڑی تعداد مشرقی یورپی ممالک کی ہے، جو کٹھن اور مشکل حالات کے باوجود وہاں کام کرتے ہیں۔

رابرٹ ٹوئنیز کے مطابق اس اسٹاف کو کافی خراب حالات میں رکھا جاتا ہے اور اگر وہ انفیکٹ ہو جائیں تو ان کی کئی خاص دیکھ بھال نہیں ہوتی۔ اطلاعات کے مطابق اس معاملے پر رابرٹ ٹوئنیز کا اپنے انکل کے ساتھ پہلے سے اختلاف رہا ہے۔

جرمن وزیر زراعت ژولیا کلوکلنر نے بھی سوال اٹھایا ہے کہ صرف ایک کاروبار میں ہی بار بار اتنے سارے لوگ کیوں کورونا کا شکار ہو رہے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اس کی تحقیقات ہوں گی اور اگر مسئلہ ملازمین کے استحصال کے ہے تو پھر اس کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔

پچھلے دنوں ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے سربراہ نے قصائی خانوں میں وبا پھوٹنے کے لیے رومانیہ اور بلغاریہ جیسے مشرقی ممالک سے آنے والے ملازمین کو مورد الزام ٹہرایا تھا۔ جرمن حکومت کے وزیر خارجہ نے ان کے اس بیان کو خطرناک قرار دیا اور انہیں اس پر معذرت کرنے کا مشورہ دیا۔