غزل

Anwar Jamal Farooqi

Anwar Jamal Farooqi

تمثیل زندگی تو ایک گجر کی بات ہے
انکشاف ذات عمر خضر کی بات ہے

تیرے بغیر ہم نے گزاری ہے کس طرح
بھری بزم میں کیا کہیں یہ گھر کی بات ہے

درگاہ عشق پر بھی نہیں جھکنے دیا اسے
پندار کی نہیں یہ دستار سر کی بات ہے

آنکھوں سے خواب نکلے آسا چناب کل
ڈوبا رہا کچا گھڑا یہ چشم تر کی بات ہے

کس نے وفا نبھائی تھی کون تھا بے وفا
اب سچ کیا کہیں یہ اگر مگر کی بات ہے

بادل کسی کو بارش کہیں سیلاب دے گئے
یہ اپنی اپنی دعاوں کے اثر کی بات ہے

انور جمال اس کشوری کا کیا تذکرہ یہاں
جلتے ہوے مکاں کے دیوارودر کی بات ہے

تحریر:انور جمال فاروقی