ایران پر اسرائیلی حملے کا امکان نہیں دیکھ رہے: امریکی عہدیدار

Israel and Iran

Israel and Iran

امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) اگرچہ اسرائیل نے گذشتہ ہفتے امریکی انتظامیہ سے فضائی ایندھن بھرنے والے ٹینکروں کی ترسیل کو تیز کرنے کے لیے کہا ہے جو ایران کی جوہری تنصیبات پر بمباری کے لیے اہم ہو سکتے ہیں مگرامریکی حکام نے کہا ہے کہ انہیں یقین نہیں ہے کہ اسرائیل تہران پرعن قریب حملہ کرے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ انھیں یقین ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ فوجی کارروائی کے لیے عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کی خاطر ایران اور مغرب کے درمیان حتمی معاہدے میں سخت شرائط کے خواہاں ہیں۔

یہ بات اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینٹز کے دورہ امریکا کے دوران اس وقت سامنے آئی ہے جب انہوں نے چند روز قبل واشنگٹن میں امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن اور دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقات کی تھی۔ انہوں نے درخواست کی تھی کہ ایندھن بھرنے والے طیاروں کو جلد تیار کیا جائے۔ نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں امریکی اور اسرائیلی حکام کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ یہ طیارے 2024 کے آخر تک تیار ہو جائیں گے۔

یہ پیش رفت نئی کشیدگی کے ساتھ سامنے آئی جس نے واشنگٹن اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کو متاثر کیا ہے۔ دونوں ممالک ایران کے جوہری مسئلے سے نمٹنے کے طریقہ کار پر اختلاف رکھتے ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ کے حکام کو تشویش ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ فوجی حملے کے خطرے کو بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایران کے خلاف سفارت کاری کی ناکامی کے بعد واضح ہو گیا کہ تہران جوہری ہتھیار بنانے کے قابل ہونے کی دہلیز کے پہلے سے کہیں زیادہ قریب ہے۔
خطیر بجٹ

اسی سیاق و سباق میں اسرائیلی حکام نے انکشاف کیا کہ بینیٹ نے فضائی حملے کی مشق کرنے کے لیے مشقوں پر بہت زیادہ بجٹ لگایا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جوہری معاہدے کی بحالی کی کوئی بھی کوشش ایک ناقص معاہدے کی طرف لے جائے گی جس سے ایران کو بم بنانے کی طرف پیش رفت کرنے کا موقع ملے گا۔

جب کہ فضائی ایندھن بھرنے والے طیاروں کا موجودہ اسرائیلی بیڑا 50 سال سے زیادہ پرانا ہے اور بوئنگ 707 پر انحصار کرتا ہے۔ KC-46 ٹینکرز کا نیا بیڑا اسرائیل کو بہت زیادہ رینج اور صلاحیت فراہم کرتا ہے کیونکہ یہ لڑاکا طیاروں اور بمبار طیاروں کو فضائی طور پر ایندھن بھر سکتا ہے۔
ایندھن کا بحران

بلاشبہ ایندھن بھرنا بہت ضروری ہے۔ ورنہ اسرائیلی طیاروں کو بوڑھے ٹینکروں پر انحصار کرنا پڑے گا یا پڑوسی ممالک میں اترنا پڑے گا جن میں سے کوئی بھی حملے میں مدد کرنے میں شامل نہیں ہونا چاہتا ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ بہت سے موجودہ اور سابق حکام کے مطابق اسرائیل کو یقین ہے کہ اس حملے کو انجام دینے کے لیے بعض تنصیبات پر کئی بار بمباری کی ضرورت ہو گی۔ خاص طور پر فوردو جوہری پلانٹ جو کہ ایک ایرانی پہاڑ میں گہرائی میں ہے ایندھن کی افزودگی کا مرکز ہے۔ اس میں تھوڑا وقت لگے گا اور اس لیے انہیں ایندھن بھرنا پڑے گا۔