کشمیر میں شدت پسندی کی تفتیش کے لیے نئی ایجنسی کے قیام کا مطلب کیا ہے؟

Indian Army

Indian Army

کشمیر (اصل میڈیا ڈیسک) بھارتی حکومت نے کشمیر میں شدت پسندی سے متعلق کیسز کی تفتیش کے لیے ایک نئی ایجنسی کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ ماہرین کے مطابق مرکز کشمیر میں اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے اس طرح کے اعلان کرتا رہتا ہے۔

بھارتی حکومت نے یکم نومبر کو اپنے زیر انتظام خطہ کشمیر میں ایک نئی خصوصی تفتیشی ایجنسی قائم کرنے کا اعلان کیا، جس کا نام ’اسٹیٹ انوسٹیگیشن ایجنسی‘ (ایس آئی اے) ہوگا۔ یہ ایجنسی بنیادی طور پر دہشت گردی سے منسلک جرائم کے کیسز کی تفتیش کرے گی۔

ایک سرکاری بیان کے مطابق،’’ایس آئی اے قومی تفتیشی ایجنسی این آئی آئی اور دیگر مرکزی ایجنسیوں کے ساتھ، رابطے کے لیے ایک نوڈل ایجنسی کے طور پر کام کرے گی اور دہشت گردی سے متعلق کیسز کی تیز رفتار تفتیش کے ساتھ ہی قانونی کارروائی کرنے جیسے ضروری اقدامات کرے گی۔‘‘

بھارتی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں میں حکومتی ذرائع سے کہا گيا ہے کہ اس ایجنسی کے قیام کی ضرورت اس لیے پڑی تاکہ دہشت گردی سے متعلق جو کیس قومی تفتیشی ایجنسی این آئی اے کے حوالے نہیں کیے جاتے ان کی بھی، خصوصی طور پر تفتیش کی جا سکے۔

اس کے لیے کشمیر میں ہی ایس آئی اے کا ایک دفتر ہو گا اور ڈائریکٹر کی تقرری کی جائے گی۔ سبھی تھانوں کے انچارج افسران کو دہشت گردی سے متعلق درج ہونے والے کسی بھی کیس سے متعلق فوری طور پر ایس آئی اے کو مطلع کرنا ہو گا۔ اس میں وہ کیس بھی شامل ہوں گے جن میں تفتیش کے دوران دہشت گردی کے بارے میں کچھ پتہ چلے۔

اس کے دائرے میں دہشت گردی سے تعلق رکھنے والے جرائم، دہشت گردی کی مالی معاونت اور جعلی کرنسی نوٹوں کے پھیلنے سمیت تمام دہشت گردانہ کارروائیاں آئیں گی۔ اس میں دہشت گردی سے متعلق بڑے سازشی مقدمات اور دہشت گردی سے منسلک پروپیگنڈہ، جھوٹا بیانیہ، بڑے پیمانے پر اکسانے، بے اطمینانی پھیلانے اور ملک کے خلاف دشمنی جیسے کیسز شامل ہیں۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہر جانب فوج کا پہرہ ہے، سیاسی سرگرمیاں پوری طرح سے بند ہیں، سیاسی کارکنان، دانشوروں، طلبہ، انسانی حقوق کے کارکنوں سمیت سینکڑوں کشمیری جیلوں میں ہیں۔ جمہوری قدریں اور بہت سے بنیادی حقوق تعطل کا شکار ہیں۔ خطے میں درجنوں ایجنسیاں پہلے ہی سے سرگرم ہیں تو پھر اس نئی ایجنسی کی ضرورت کیا ہے؟

کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ قانون کے سابق ڈین اور ماہر قانون پروفیسر شیخ شوکت کہتے کہ بھارتی حکومت کشمیر کے تعلق سے بس قانون پر قانون بناتی جا رہی ہے تاہم کوئی چیز راستے پر آ نہیں رہی ہے، ’’ تمام کوششوں کے باوجود چیزیں ان کے کنٹرول سے باہر ہیں، یہ اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ ان کے پاس اس وقت جو میکنزم ہیں وہ سب کے سب ناکام ہو گئے ہیں۔‘‘

ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں پروفیسر شیخ شوکت نے کہا کہ بھارتی حکومت دعوی کرتی رہتی ہے کہ اس نے یہ قدم اٹھایا ہے تو اب کشمیر میں سب بہتر ہو جائے گا تاہم وقت کے ساتھ اس کے تمام دعوے غلط ثابت ہو رہے ہیں،’’مرض بڑھتا ہی گيا جوں جوں دوا کی، ۔۔۔ تو دوا کے بجائے ۔۔۔ جوں جوں لاٹھی بڑی کرتے گئے، پھر بھی حالات سدھر نہیں رہے تو پھر کیا کریں گے۔‘‘

ان کے بقول ایسی ایجنسیوں کے اختیارات وسیع ہوتے ہیں۔ اور وہ لوگوں کو بہت ہراساں کرتی ہیں،’’یہ ان کے ہاتھ میں ہراسانی کا ایک اور ہتھیار ہو گا۔ لیکن ان کی لاکھ طاقت کے باوجود حالات پھر بھی بے قابو ہیں۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں شوکت نے کہا کہ کشمیر میں تو انسانی حقوق کا قصہ ہی ختم ہے۔ ،’’یہاں ایجنسیز اور قوانین پہلے سے ہی بہت سخت ہیں۔ انسانی حقوق وغیرہ جیسی یہاں کوئی چیز نہیں ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن ایک تھا بھی وہ بھی ختم کر دیا گيا، یہاں تو ایمرجنسی نافذ ہے، جیسے اندرا گاندھی کی ایمرجنسی میں بھارت کے حالات تھے، اسی طرح کے حالات کشمیر میں مستقل طور ہیں۔‘‘

کشمیر کے ایک اور سرکردہ وکیل ریاض خاور کہتے کہ بھارتی حکومت کشمیر میں اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے اس طرح کے اعلان کرتی رہتی ہے اور اس سے کشمیر عوام بھارت سے مزید دور ہوتی جا رہی ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے مزید کہا،’’حکومت کے قول و فعل میں بہت فرق ہے۔ امیت شاہ کے دورے کے فوری بعد حکومت نے ایک اور ایجنسی بنانے کا اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے نوجوانوں سے بات چيت کرنے کی بات کہی تھی تاہم ان کے آتے ہی ان کی گرفتاریاں شروع ہو گئیں۔ کشمیر کے تعلق سے حکومت کی پالیسیاں بالکل غلط ہیں۔‘‘