’تو مارشل لا ہی نافذ کیوں نہیں کر دیتے‘

Protest

Protest

دہلی (اصل میڈیا ڈیسک) بھارتی دارالحکومت میں پولیس نے دہلی کی سرحدوں پر خاردار تاروں کی باڑ لگا دی ہے، خندقیں کھود دی ہیں اور لوہے کی لمبی لمبی کیلیں گاڑ دی ہیں تاکہ کسان قومی دارالحکومت میں داخل نہ ہونے نا پائیں۔

متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے کسانوں کو روکنے کے لیے دہلی کی سرحدوں کی غیر معمولی حصار بندی کی ہر طرف سے مذمت ہو رہی ہے۔ دوسری جانب کسان چھ فروری کو ملک گیر سڑک جام کرنے کے اپنے فیصلے پر قائم ہیں۔

قومی دارالحکومت میں داخل ہونے سے کسانوں کو روکنے کے لیے دہلی کی تمام سرحدوں کو پوری طرح سیل کر دیا گیا ہے۔ بھارت کی تاریخ میں سکیورٹی کے ایسے غیر معمولی انتظامات پہلی مرتبہ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ پانچ فٹ چوڑی کنکریٹ کی دیواریں بنا دی گئی ہیں۔ بیریکیڈ کی پانچ سے چھ لائنیں کھڑی کی گئی ہیں۔ سڑکوں پر بڑی بڑی کیلیں گاڑ دی گئی ہیں، خاردار تاروں کی باڑ لگا دی گئی ہے اور آٹھ سے دس فٹ گہری خندقیں کھود دی گئی ہیں۔

دہلی میں داخل ہونے کے تقریباً تمام راستے بند کر دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بڑی تعداد میں پولیس اور نیم فوجی دستے بھی تعینات کیے گئے ہیں۔ بعض مقامات پر ٹوائلیٹ کی سہولت اور پانی کی سپلائی بھی منقطع کر دی گئی ہے۔

آل انڈیا کسان مہاسبھا کے جنرل سکریٹری اتل کمار انجان نے حکومت کے ان اقدامات کی شدید مذمت کی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ”مودی حکومت کسانوں کو ان کے آئینی حق سے محروم کرنے کے لیے جو اقدامات کر رہی ہے اس سے تو بہتر تھا کہ ملک کے اندر مارشل لا ہی نافذ کر دیتے۔”

دہلی کی سرحدوں پر اتنی سخت بیریکیڈنگ کے حوالے سے اتول کمار انجان کا کہنا تھا کہ حکومت ملک کے اندر ہی لائن آف کنٹرول (ایل او سی) بنانا چاہتی ہے۔”دراصل مودی حکومت کی پریشانی یہ ہے کہ پچھلے چھ برسوں کے دوران اس نے ہندو مسلمان میں تفرقہ پیدا کرنے کی جو کوشش کی تھی، کسان تحریک نے اس بیانیے کو توڑ ڈالا ہے۔ اس کے بعد ہندو اور سکھوں کے درمیان منافرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ بھی نا کام ہوگئی۔ حکومت اب فسطائیت پر اتر آئی ہے۔”

اتول کمار انجان کا کہنا تھا”اس حکومت نے تمام حدیں پار کردی ہیں۔ آزاد بھارت میں جمہوریت کے تحت لوگوں کو اپنے حق اور انصاف کی لڑائی کے لیے تمام آئینی حقوق حاصل ہیں۔ حکومت جو دیوار کھڑی کرنے کی کوشش کر رہی ہے اگر اس طرح کی دیوار پاکستان اور چین کی سرحد پر ہوتی تو شاید اس ملک کی حفاظت زیادہ بہتر طریقے سے ہوپاتی اور شاید اس ملک میں نفرت بھی کم ہوتی۔”

کسان رہنما نے بھارتی عدلیہ پر بھی سوالات اٹھائے۔ اتول کمار انجان کا کہنا تھا ”اترپردیش کے 76 اضلاع میں گزشتہ تقریباً دو برس سے امتناعی احکامات نافذ ہیں۔ کیا کہیں اتنے دنوں تک امتناعی احکامات نافذ کیے جاتے ہیں؟ کہاں ہے قانون؟کہاں ہیں عدالتیں؟ کہاں ہے سپریم کورٹ؟”

کسان تحریک کی نمائند ہ تنظیم، کسان متحدہ محاذ کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے حکومت کسانوں کے مظاہرے کو ملنے والی وسیع تر حمایت سے خوف زدہ ہوگئی ہے اور اسی لیے ان کو روکنے کے لیے اس قدر غیر معمولی انتظامات کر رہی ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ احتیاط کے طور پر یہ انتظامات کئے جارہے ہیں۔

دہلی کے پولیس کمشنر ایس این سریواستوا نے تاہم ان انتظامات کا دفاع کیا ہے۔ انہوں نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ”مجھے حیرت ہے کہ جب چھبیس جنوری کو بیریکیڈ توڑ کر پولیس والوں پر حملے کیے گئے تو کسی نے سوال نہیں اٹھا یا۔ ہم نے اب جو کچھ کیا ہے وہ اس لیے کیا ہے تاکہ حصار بندی کو کوئی توڑ نہ پائے۔”

کسان رہنما اتول کمار انجان کا کہنا تھا”اس ملک کے کسان کانٹے دار تاروں اور خندوقوں کی پرواہ نہیں کرتے۔ اگر حکومت زیادہ پریشان کرے گی تو کسان دہلی میں چاروں طرف اکٹھا ہو جائیں گے اور یہ کام بہت جلد ہونے والا ہے۔”

خیال رہے کہ کسانو ں نے چھ فروری کو ملک گیر ہڑتال کرنے کا اعلان کیا ہے۔

اتول کمار انجان نے مزید کہا کہ حکومت کی تمام تر زیادتیوں کے باجود کسان اب بھی بات چیت کے لیے تیار ہیں کیوں کہ ”ہم فاششٹ نہیں ہیں، ہمیں اپنی اس دھرتی سے محبت ہے۔”