میں کیسے عید مناؤں؟

Eid

Eid

میں کیسے عید مناؤں؟
کیا تم عید منا ؤ گے؟
پاک سر زمیں لہو سے لال ہے
تم عید کے رنگ کہاں سے لاؤ گے؟
رش لگا ہے کفن کے دکانوں پر
عید کے کپڑے کہاں سے سلواؤ گے؟
ہر گلی میں لاشیں بھکری ہیں
پھر تم رونق کہاں سے لاؤگے؟

تہوار قوم کی علامت اور پہچان ہیں اگرچہ با شعور قومیں اپنے اپنے تہوار اپنے مذیبی اطوار سے مناتی ہیں اس سے قوم کی ثقافت اور مذہب کی عکاسی ہوتی ہے ۔مسلمانوں کے تہوار بہت زیادہ ہیں لیکن امت مسلمہ اس امر کو واضح کرتی ہے کہ مسلمانوں کے سال میں سب سے بڑے دو تہوار ہیں یعنی عید الفطر اور عید الضحیٰ ۔ ان دونوں تہوار کو دین اسلام میں بہت قدر و منزلت حاصل ہے مسلمان ان تہواروں کے لئے خوش و خروش سے خصوصی اہتمام کرتے ہیں ۔ عید کے معنی خوشی ، مسرت یا جشن کے ہیں ۔ اس سے مراد خوشیوں بھرا دن جو بار بار لوٹ کر آ ئے۔ جبکہ فطر افطار کا جمع ہے ۔ فطر کے معنی ٰ روزہ کھولنے کے ہیں اس طرح عید الفطر وہ انعام ہے جو امت مسلمہ کو رمضان المبارک کی رحمتوں اور برکتوں والے مہینے کے بعد عطا ہوا بقول شاعر
یہ خوشی ہے روزہ داروں کے لئے
روزے جو گئے ، ان کی رسید آ ئی ہے

یہ عید کا انعام ان لوگوں کیلئے اللہ تعالی ٰ نے مقرر فرمایا ہے جو خوف خدا رکھتے ہیں ۔ اس کی خوشنودی اور معرفت حاصل کرنے کے لئے رار کو قیام اور دن میں روزہ رکھتے ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ” روزہ میرے لئے ہے اور میںہی اس کا اجر دونگا ” اس سے ثابت ہوتا ہے کہ روزے صرف اور صرف اللہ رب العزت کو خوش کرنے کے لئے اور خود روحانی کوشی حاصل کرنے کے لئے ہیں۔

درحقیقت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی موجودہ حالات اور بد حالی کسی قسم کی خوشی کی ہر گز اجازت نہیں دے رہی ہے کیونکہ پورا خطہ کسی نہ کسی غم میں حکومتی نااہلیت کی وجہ سے متاثر ہے غم میں خوشی کی کوئی قدر نہیں رہتا ۔ کہنے کا مقصد یہ کہ پاکستان کا کوئی ایسا صوبہ ، ضلع ، یا قصبہ مجھے کہیں بھی نظر نہیں آ تا جہاں اس وقت کوئی امن و امان اور سکون کا دعوے دار ہو۔ مہنگائی ، بد امنی ، بے روزگاری ، نا انصافی اور لاقانونیت کی زنجیر سے ہر کوئی وابسطہ ہے۔

امیر و غریب سمیت یتیم و بے سہارا لوگ سب کے سب مسائل کی زنجیر میں جکھڑہوئے ہیں ۔ تاجر کی تجارت بد امنی کی وجہ سے بند ہے ۔ مل و فیکٹری مالکان کی بد نصیبی ہے کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ سے ان کی فیکٹریاں زبو حالی کا شکار ہیں اور سالوں آ وارہ کتوں کی آ رام گاہ بنا ہوا ہے ۔ زمیندار و کسان کی پریشان ہیں ان کو فصلوں کے لئے بر وقت پانی نہیں ملتی ہے۔

یا سیلاب سے تبائی مچ جاتی ہے ۔مزدور حضرات کو مزدوری نہیں ملتی ہے اگر مل بھی جاتی ہے تو 300 روپے روزانہ کی کمائی جبکہ خرچہ روزانہ 500سے 800 روپے ہے ۔ ہزاروں ہنر مند بے روزگار گوم رہے ہیں ۔ سرکاری و نیم سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں ہنر مند کے لئے کوئی جگہ نہیں بلکہ میاں سفارش و رشوت خان کی اہمیت بہت ہے پھر سول انجینئر کو مکینکل انجینئر بناتے ہیں یا انجینئر کو ڈاکٹری دلاتے ہیں اور انجینئر کو ڈاکٹری کا شعبہ حوالہ کرتے ہیں ۔ غریب ، بے واہ اور بے سہارا لوگوں کی امداد کرنے کے بجائے ان سے ہی زکواة و خیرات موصول کی جاتی ہے۔

ہر طرف شعبہ زندگی میں مسائل در مسائل ہیں۔ دنیا کا ہر جرم یہاں آ زادی بلکہ بہادری سینہ زوری سے ہوتی ہے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ گھر سے نکلنا اور سفر کرنا انتہائی مشکل ہے۔ ہمارے حالات تو ہمارے سامنے ایک کھلی کتاب ہے بلوچستان ،سندھ، خیبر پختوں خواہ، پنجاب ، ،وزیرستان، فاٹا ،جمو و کشمیر کوئی ایسا شہر مجھے نظر نہیںآتا جو ایک دن امن کے ساتھ گزار کر عالمی ریکارڈ قائم کرے۔

Drone Attacks

Drone Attacks

ڈرون حملے ،بوری بند لاشیں،بم دھماکے،ٹارگیٹ کلنگ،اور بے گناہ قتل وغارت خوشی کی اجازت تو بالکل نہیں دیتا ۔ ہر روز ہر گھر میںلاشیں بھری پڑی ہیں ،کوئی گھر حکومتی درد سے خالی نہیں ہے ہر جگہ درد ناک واقع سکون چھین چکی ہیں۔ بلوچستان کا کوئٹہ کسی دور میں پاکستان کا پر سکون صوبائی دارالحکومت ہوا کرتا تھا جہاں کی بلوچ بھائیوں کی امن بھای چارے کی مثال ملک بھر میں دیا جاتا تھا۔

مگر آ ج اسکی درجنوں ہسپتالوں میں بم دھماکے،خود کش حملے،لوٹ مار چوری ڈکیتی ، ٹارگیٹ کلنگ،اغوا نما گرفتاری ،فرقہ واریت ،لسانیت،قومیت جیسی دہشت گردی سے متاثر بلوچستانیوں کا خون دھویا نہیں جا پا رہا ہے یک بعد دیگر حصے سے درجنوں کی تعداد میں سرخ و دل گیر دردناک لعشو ں کا سلسلہ ایک دن ک لیے بھی نہیں رک رہا ہے۔

کوئی گھر سے نکلتا تو گھر والے اپنی فکر چوڑھ کر اپنے بازار جانے والی فرد کی زندہ واپسی کی منت اور دعائیں مانگتے ہیں لیکن درجنوں کی تو ضرور ناکام جاتی ہیں۔ اگر سندھی بھائیوں کی تو بالکل کوئٹہ ہی کی طرح کراچی بھی امن امان کی شہرکی حالت دہشت گردی نے بھاگنے جیسا کر رکھا ہے بوری بند نعشوں اور ٹارگیٹ کلنگ کا بازار گرما گرم ہے۔

میں کیسے عید مناؤں؟ جیسی بات ہے جس گھر میں ماتم ہو وہاں خوشی اور عید نہیں منائی جاتی بلکہ رسم صرف ادا کی جاتی ہے۔ جو ہو رہا ہے اور جو کروایا جا رہا ہے بھلے حکومت اس میں ملوث نہیں لیکن شرعی طور پر ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے کہ عوام کے ساتھ ہر تعاون کرے ۔عید منانے میں تب مزا آ ئے گا جب پاکستان میں امن ہو ، بھائی چارہ قائم اور لاقانونیت ختم ہو ۔ مسجد اور بازار میں دھماکہ نہ ہوں تب ہی خوشی کا سوال پید ا ہوتا ہے۔ عید کی رونقیں بحال ہو سکتی ہیں۔

کاش ہوتا میرے پاک سر زمین پر اس بار تو امن
اب اک بار اور عید آئی ہے میں کیسے عید مناؤں

Asif Lingo

Asif Lingo

تحریر : آصف لانگو
03003802786 رابطہ