مشرف کو گرفتار کرتے تو رینجرز اور پولیس میں تصادم کا خطرہ تھا: وکیل آئی جی

Musharraf

Musharraf

اسلام آباد(جیوڈیسک)سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف آئی جی کی اپیل پر رینجرز کی اسلام آباد میں تعیناتی سے متعلق نوٹفیکیشن اور متعلقہ تھانے سے روزنامچہ اور ریکارڈ طلب کرلیا۔جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے آئی جی کی اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست کی سماعت کی۔

دوران سماعت آئی جی کے وکیل عبدالعزیز نے عدالت کو بتایا کہ پرویز مشرف کو 18 اپریل کو ساڑھے 3 بجے گرفتار کرلیا تھا اور 5 پولیس اہلکاروں کو معطل کر کے رپورٹ ہائیکورٹ میں جمع کرا دی گئی ہے۔ وکیل آئی جی نے کہا کہ عدالتی حکم پر عملدرآمد کی رپورٹ 19 اپریل کو ہائیکورٹ میں جمع کرا دی تھی۔ عدالت نے سیکرٹری داخلہ کو آئی جی کے خلاف کارروائی کرکے رپورٹ جمع کرانے کا کہا ہے۔

آئی جی کے وکیل نے عدالت میں انکشاف کیا کہ مشرف کی عدالت میں پیشی کے موقع پر 200 رینجرز اہلکار اور ایس ایس جی کمانڈوز اسلحے سمیت وکیلوں کے لباس میں موجود تھے جبکہ ایس ایچ او کو گاڑی اندر لانے کی اجازت نہیں تھی۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے ان سے استفسار کیا کہ وہ کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں ایس ایس جی کمانڈوز وکیلوں کے لباس میں موجود تھے۔ وکیل نے بتایا کہ میڈیا کے کلپس منگوا کر دیکھ لیں ایسا ہی تھا۔

وکیل آئی جی نے بتایا کہ پرویز مشرف کو بلٹ پروف گاڑی میں لایا گیا جو کمرہ عدالت کے بالکل سامنے پارک کی گئی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ من حیث القوم ہمارے ذہنوں سے غلامی نہیں گئی۔ مملکت خداداد پاکستان میں ایسا کیوں ہو رہا ہے آئین میں آرٹیکل 25 موجود ہے لوگ کہتے ہیں یہ بڑے آدمی کا کیس ہے۔ وکیل آئی جی نے بتایا کہ آئی جی اسلام آباد کو سنے بغیر ان کے خلاف فیصلہ دیا گیا۔

جس پر جسٹس جواد نے کہا کہ پولیس کے کام میں مداخلت کی گئی 7 دن ہوگئے کس کے خلاف کارروائی کی ہے۔ وکیل آئی جی نے بتایا کہ وہ توقع کر رہے تھے کہ رینجرز قانون نافذ کرنے والے ادارے کے طور پر جنرل مشرف کو گرفتار کرے گی۔ کسی کے ذہن میں نہیں تھا کہ رینجرز عدالتی حکم ماننے کے بجائے مشرف کو فرار کرانے میں کردار ادا کرے گی۔

وکیل آئی جی نے بتایا کہ اگر مشرف کو گرفتار کرنے کی کوشش کرتے تو رینجرز اور پولیس میں تصادم کا خدشہ تھا۔ عدالت نے رینجرز کی اسلام آباد میں تعیناتی سے متعلق نوٹفیکیشن، اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی نقول اور18 اپریل کا متعلقہ تھانے سے روزنامچہ اور ریکارڈ کل تک طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔