ظلم کی حاکیمیت

Cruelty

Cruelty

گڑھ کے نواحی علاقہ میں فرسٹ ائر کی طالبہ آمنہ کے ساتھ علاقہ کے با اثر شخص نادر خان بھنڈ نے اپنے تین چار ساتھیوں سے مل کر اجتماعی زیادتی کی مظلوم لڑکی تھانہ میرہزارخان شکایت لے کر پہنچی تو سب انسپکٹر ذوالفقار نے انہیں نہ صرف برا بھلا کہا بلکہ تشدد کا نشانہ بھی بنایا اور ملزمان سے ملی بھگت کرکے اسے بے گناہ قرار دیدیا جس پر ملزمان کی ضمانت کنفرم ہو گئی متاثرہ طالبہ آمنہ نے دل برادشتہ ہوکر تھانہ میرہزار خان کے باہر خودپر پٹرول چھڑک کر خود سوزی کرلی ۔۔۔ خدا کی پناہ! ایک ماہ قبل ننکانہ صاحب کے نواحی گائوں میں سات ماہ کی بچی سے زیادتی کی گئی۔ ملزم گرفتار کرلیا گیا۔

استغفراللہ ۔کچھ عرصہ قبل لاہورکی ایک پھول سی بچی کے ساتھ زیادتی کا دلخراش واقعہ ہوا ملزم ننھی پری کو ہسپتال چھوڑ کر فرار ہوگیا ۔۔۔کمالیہ میںبھی ایسا ہی کیس سامنے آیاہے لگتا ہے۔۔۔ چکوال میں بھی ایک نوجوان لڑکی کو عصمت دری کے بعد قتل کردیا گیا مقتولہ کی والدہ نے دھمکی دی ہے کہ اگر ہمیں انصاف نہ ملا ملزمان گرفتارنہ کئے گئے تو وہ DPO کے دفتر کے باہر خود سوزی کرلے گی۔ہم ارد گرد نظر دوڑائیں تو محسوس ہوگا کہ ملک میں جنسی بے راہروی بڑھتی ہی جارہی ہے کمسن بچوں پر جنسی تشدد میں خوفناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آرہاہے اس کا ایک ہی سبب ہے کہ شاید لوگوں کے دلوں سے سزاکا خوف ختم ہوگیاہے۔۔

یا۔ ا نصاف کا تصور دم توڑرہاہے یا پھرمعاشرہ میں حلال حرام کی تمیز نہیں رہی حالانکہ انصاف ،جزا اور سزا کے بغیر معاشرے میں توازن ممکن ہی نہیں ۔تاریخ بتاتی ہے کسی نے خلیفة المسلمین حضرت عمر ِ فاروق سے سوال کیا یا حضرت!اسلام کی سب سے بڑی پہچان کیاہے؟۔۔۔انہوںنے بلاتامل جواب دیا اسلام کا نظام ِ عدل۔۔لیکن ہمارا ملک جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلاتاہے کیاہم سب دل پر ہاتھ رکھ کر یقین سے کہہ سکتے ہیں اس ملک میں عدل نام کی کوئی ایک چیز بھی پائی جاتی ہے؟ خلیفہ الرسول ۖ حضرت علی نے تو یہاں تک کہہ ڈالا کفرکی حکومت قائم رہ سکتی ہے ظلم کی حکومت نہیں اب ذرا دل و دماع حاضر کرکے سوچئے ہمارے معاشرے میں قدم قدم پر ظلم نہیں ہورہا؟ یہاں ظالم ا تنے طاقتور، بااثر اورصاحب ِ اختیار ہیں کہ آئین اور قانون بھی ان کے سامنے بے بس ہوگیاہے۔

اس لئے ہرروز ایک نیا سانحہ جنم لے رہاہے۔۔ہررات ظلم کی ان گنت کہانیاں جنم لیتی ہیں۔۔۔ہر سورج مظلوموںکیلئے نیا امتحان لے کر طلوع ہوتاہے کبھی آمنہ خودسوزی کرتی ہے لیکن بااثر ملزمان کا کچھ نہیں بگڑتا۔۔ کبھی بہن کی عزت بچاتے ہوئے جہاںزیب قتل ہو جاتاہے اور قاتل ضمانت منظورہونے پر عدالت کے احاطہ سے باہر جاتے ہوئے اس انداز سے وکٹری کا نشان بناتے ہیں جیسے انہوں نے کشمیر فتح کرلیا ہو۔۔۔کبھی سیالکوٹ میں ظالم سینکڑوں لوگوںکی موجودگی میں دو سگے بھائیوںکو بہیمانہ انداز سے ڈنڈے مار مار کر مارڈالتے ہیں اور ایک شخص بھی انہیں روکنے کی جرأت نہیں کرتا ۔ملک کے طول و عرض میں چھوٹی بچیوں کے ساتھ درندگی کرنے والے شہر شہر دندناتے پھرتے ہیں جتنا ظلم پاکستان میں روا ہے شاید دنیا کے کسی خطے میں اس کی کوئی مثال نہ دے سکے اسلامی تاریخ عدل و انصاف کے ان گنت واقعات سے بھری پڑی ہے۔

مگراس سے رہنمائی حاصل کرنے والا کوئی نہیں کوئی بھی شاید اس طرف دیکھنا گوارا نہیں کرتا ہرحکمران کے نزدیک انصاف کا معیار الگ۔۔پیمانے جدا اور سوچ مختلف ہے۔ سستا اور فوری انصاف کا نعرہ ہمیشہ لگایا جاتاہے عملاً اس کیلئے آج تک کچھ بھی نہیں کیا گیا عدالتوںمیں مقدمات کی بھرمار اور ججز کی تعداد کم ہے یہ بھی سستے اور فوری انصاف کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہے پیچیدہ عدالتی سسٹم بھی انصاف کے منہ پر ایک طمانچہ ہے لوگ نسل در نسل عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرتے ہیں لیکن فیصلہ اتنی دیرمیں ہوتاہے کہ سائل تھک جاتاہے۔

Media

Media

کہتے ہیں انصاف نظر آنا چاہیے تاکہ دوسرے اس سے سبق حاصل کر سکیں لیکن یہاں صورت ِ حال اس کے بر عکس ہے۔میڈیا جس واقعہ کی بھرپور کوریج کرتاہے وہ اعلیٰ حکام کی نظر میں آجاتاہے اس کی کچھ نہ کچھ اشک روئی بھی ہو جاتی ہے پچھلے دنوں وزیر ِ اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے مظفر گڑھ کے نواحی علاقہ میں فرسٹ ائرکی طالبہ آمنہ کی خود سوزی کا نوٹس لے کر فرائض سے غفلت برتنے پر کچھ اہلکاروں کو معطل کچھ کو گرفتار کروایا ہے متاثرہ خاندان کی مالی امداد بھی کی یقینا یہ میاں شہبازشریف کا بڑا مستحسن اقدام ہے جس کا جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس واقعہ کی خبر وزیر ِ اعطم یا وزیرِ اعلیٰ کو ہوگی صرف انصاف انہی متاثرین کو ملے گا باقی مطلوموں کا کیا بنے گا ؟ کیا یہی انصاف کا معیار بنالیا گیا ہے۔

عدل وانصاف کا تو مطلب ہے فوری سستا انصاف ۔۔۔سب کیلئے اس کیلئے ایک بے رحم سسٹم بنانے کی انتہائی ضرورت ہے جو بھی کسی جرم کا مرتکب ہو اسے بلا امتیاز قرار واقعی سزا دی جائے امیر غریب ، اپنے پرائے کی کوئی تخصیص روا نہ رکھی جائے حکمرانوںنے۔۔۔ اگر پاکستان کا نظام درست کرناہے ۔۔۔اسے کسی سسٹم کے تحت چلاناہے اس ملک سے ظلم کی حاکمیت ختم کرنی ہے تو پھر ٹھوس منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔۔دل کی بجائے دماغ سے سوچناہوگا اللہ تعالیٰ نے میاں نواز شریف کو بہترین مواقع عطاکئے ہیں وہ تھوڑی سی ہمت اور کوشش کریں تو ملک وقوم کیلئے بہت کچھ کیا جاسکتاہے۔انصاف کا حصول سہل اور ظلم کا خاتمہ نصب العین بناکر پاکستان کی تقدیر بدلی جا سکتی ہے جنسی جرائم کا خاتمہ جنسی تعلیم سے نہیں حدود اللہ کے نفاذ سے ہوگااس بارے میں دو رائے نہیں ہو سکتی جو لوگ پاکستان کو سیکولر ملک بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔

ان کی خواہش ہو سکتی ہے یہاں اسلامی سزائیں نافذ نہ ہوں لیکن دنیا کے قریباً بیشتر ممالک میں گینگ ریپ کو قتل سے بڑا جرم سمجھا جاتاہے پاکستان میں توایسے جرائم کی شہادت دینا آبیل مجھے مار کے مترادف ہے پھر مظلوم کے ساتھ پولیس کا رویہ اتنا بے رحم ہوتاہے کہ مدعی ہی جیسے ملزم سمجھ لیا جاتاہے یہی وجہ ہے ملزم ہر سزا سے بچ نکلتاہے تھانہ کلچر ختم کرکے بھی انصاف کا حصول بہتربنایا جا سکتاہے صرف یہ بات سمجھنے اور سمجھانے کی ہے کہ جب تلک قانون کی حکمرانی قائم نہیں کی جاتی راہ چلتی طالبہ اغواء ہوتی رہیں گے ۔۔ گینگ ریپ بھی ختم نہیں ہوں گے اور با اثر ملزموں کو دنیا کی کوئی طاقت سزا نہیں دے سکے گی اب گیند حکمرانوں کے کورٹ میں ہے کہ وہ پاکستان میں جنگل کے قانون کی اجارہ داری کا خاتمہ چاہتے ہیں یا اس ظلم کے نظام کو نسل در نسل پاکستانی شہریوں کا مقدر بنا نے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے؟۔

Sarwar Siddiqui

Sarwar Siddiqui

تحریر: ایم سرور صدیقی