پولیس ہی مور دِالزام کیوں، معاشرہ کیوں نہیں؟؟؟

Police

Police

تحریر : اے آر طارق

معصوم بچوں ،بچیوں سے جنسی زیادتی کے واقعات اکثر وبیشتر رونما ہوتے رہتے ہیں،جن میں کمی کی بجائے اضافہ ہی دیکھنے کو ملتاہے،سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسا کیوں؟اِ س کی وجہ فحش لٹریچر کی مختلف سٹالوں فٹ پاتھوں پر فراہمی اور ہر جگہ بڑے دھڑلے سے بکتی فحش ،گندی،بلیوپرنٹ پر مبنی سی ڈی ایز ہیں،موجودہ نیٹ کیفے اِس کا اہم مرکز ہے،شایدہی کوئی سی ڈی شاپ نیٹ کیفے ایسا نہ ہو ،جو اِس طرح کی وباء کا شکار نہ ہو،ورنہ تقریباًہر نیٹ کیفے سی ڈی شاپ پر آپ کو فحش لٹریچر ،گندی تصاویر ،بلیو پرنٹ دستیاب ملیں گے،بلکہ اِن کو اِن چیزوں کی فراہمی کی فیکٹری کہاجائے تو بے جاء نہ ہو گا۔

آپ اِن سی ڈی شاپ نیٹ کیفے کا ریکارڈ چیک کریں تو آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گاکہ ہمارے معاشرے کے بگاڑ میں کون سے لوگ ملوث پائے جاتے،کام اورکاروبار کی آڑ میں کون کیا گل کھلا رہے اوریہ کہ ہماری بربادی کے سب سے بڑے ذمہ دار،ایسے لوگوں نے سہولتوں کے نام پر ہماری نوجوان نسل کو برباد کرکے رکھ دیا ہے،ہمارے بچوں کی تباہی و بربادی کا باعث بن چکے ہیں، ہر نیٹ کیفے پر بیٹھا تقریباً ہر فرد اور سی ڈی شاپ پر موجود تقریباً ہر شخص اپنی اور دوسروں کی حواس باختگی کا سامان ہی لیے موجود ہوتا،کوئی مجرا کا شوقین تو کوئی ڈانس کا رسیا،کوئی فلموں کا دیوانہ تو کوئی بلیو پرنٹ کا اسیر ِ،کمپیوٹر پر ایک کلک کی طرح آپ کی ایک فرمائش پر آپ کو آپ کی خواہش کے مطابق مواد فراہم یا مل جاتا،پھر کیا ہے کہ جو مواد ہم دیکھیں گے ،اُسی کے زیراثر پھریں گے۔

اُسی کے مطابق ڈھلیں گے،جب فحش اوربلیو پرنٹ دیکھیں گے تو اثرات تو برے پڑیں گے ہی،گندہ ،لچر مواد خرید کر پڑھیں گے تو ذہن و خیال پراگندہ تو ہوں گے ہی،ایسے میں بہتری کی اُمید کیسے؟جس معاشرے میں گندہ ،لچر،فحش مواد اور بلیوپرنٹ سی ڈی ایز عام ملتے ہواور اِس کی بغیر کسی روک ٹوک بازاروں،کھلیانوںمیں فراہمی ہو،وہاں ایسے بھیانک واقعات ہی رونما ہوتے ہیں،وہاں بہتری اور اچھے کی امید رکھنا صرف اور صرف اپنے آپ سے ایک دھوکا ہے،اِس کے سوا اور کچھ نہیں اور پھر یہ کہ بہتری کی کوششوں کے باوجود بھی بہتری آئے تو آئے کیسے؟شہر کے ہوٹل ٹی شاپٹیلرنگ شاپکباڑخانےموٹر مکینک شاپپان شاپنیٹ کیفےکیبل نیٹ ورک پر ہر جگہ پر تو فحش ،لچر،اخلاق سے عاری ،غلیظ ترین آڈیو ویڈیو ،مجرے اور ڈانس چل رہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔

شہر کے پرہجوم بازاروں میں فحش اور لچر مواد چل رہاہوتا ہے مگر گرفت کرنے والا کوئی نہیں،سکول آنے اور جانے کے اوقات میں ہر بچہ بچی گزرتے ،کچھ خریدتے اِن مناظر کو دیکھتے اور برا اثر لیتے،جبکہ بڑے اِن مناظر پر فقرےپھبتیاںکستے ،انجوائے کرتے،مزے لیتے دکھائی دیتے ہیں،ایک ایک سین پر فداہوجاتے ہیں،ایک تسکین بھرے لمحے کے لیے آہ و سسکیاں بھرتے ‘آوارہ مزاج لوگ ‘آوارہ کتوں’ کی طرح اِن مناظر کو فلمانے کے لیے ،اِن لمحوں کی پریکٹس کے لیے جانب منزل رواں دواں اندھیروں میں ڈوبے ہوئے شرمندگی و ندامت کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جاتے ہیں،اپنی وقتی ہوس کی تسکین کی آگ بجھانے کے لیے کسی ننھی پری یا مسکراتے پھول پر پل پڑتے اوروہ فعل بد سرانجام دے جاتے کہ پھر جس کے داغ زمانے سے مدتوں نہیں دھلتے،بے غیرتی وبے حسی کی تصویر بنے وہ بھیانک کھیل کھیل جاتے،جس کا خمیازہ پھر برسوں معاشرہ بھگتتا،پھر جس کی روک تھام کوششوں سے بھی نہیں ہو پاتی۔

مہذب معاشرے کے کچھ بے غیرت، بے حس افراد کچھ ایسا کر جاتے کہ جس کی سزا پھر پورا معاشرہ اُٹھاتا۔یہ وہ عوامل ہیں کہ جو ہمارے معاشرے کے بگاڑ کا باعث ہیںاور ہمیں تباہی کی جانب دھکیل رہے ہیں،ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑ رہے،ہماری نسل کی بربادی کر رہے ہیں ۔کسی بھی رونما ہوجانے والے المناک واقعے پر چڑھ جاتے ہیں اداروں پر اور اِن کی کارکردگی پر سوال اُٹھانے لگتے ہیں، اپنے ایم پی اے ،ایم این ایز کو کوسنے لگتے ہیں۔

پولیس والوں کو اِن سانحہ کے ذمہ دار ٹھہراتے ہیں،پولیس اہلکاروں، تھانے داروں،افسروں کی معطلی ،برخواستگی ،ہٹائے جانے کا مطالبہ کرتے ہیں،کیا یہ سب جو ہوتا ہے ادارے کرواتے ہیں کیا؟پولیس والے انجام دیتے ہیں کیا؟کیسا بے حس ،بے خبرمعاشرہ ہے کہ اپنے اردگرد اپنی بربادی کا سارا سامان بھی رکھے ہوئے ہیںاور چاہتے محفوظ رہنا بھی ہیں،غلط کام اِن میں موجودہ گندے لوگ کرجاتے ہیں اورالزام اداروں پر دھرتے ہیں ،اپنے اعمال ناموںکی سزا بھگت رہے ہیں اور اپنی درستگی کی جانب نہیں بڑھ رہے ہیں، یہ اداروں اور پولیس والوں کو ہی ہر بات ،واقعے میں الزام دینا چھوڑ دو،اگر پولیس والوں کی کچھ ذمہ داریاں ہیں ،جن سے وہ غفلت برتتے ہیںتو معاشرے میں رہتے ہوئے ہمارے بھی بہت سے قصور ہیں،،ہماری بھی بہت سی لاپروائیاں ہیں،جس کی وجہ سے ہم ،ہمارا معاشرہ ،ہمارے ادارے اِس کی لپیٹ میں ہیں۔

اگر ہماری پولیس اور ہمارے ادارے اچھے نہیں ہیں تو بہتر ہم بھی نہیں ہیں،جہاں خرابی ہمارے اداروں میں بھی ہے ،وہاں غفلت اور لاپرواہی ہمارے اندر بھی ہے۔آئو بحثیت شہری اورادارے معاشرے میں رہتے ہوئے فعال کردار ادا کرتے اپنے اردگرد کو اِن برائیوں سے پاک کریں،جو ہماری بربادی کا سبب ہیں، مجھے یقین ہے کہ ہمارا بگڑا ہوا معاشرہ پھر سے انسان بن جائے گا،پولیس ،اداروں اوراِن کے فراد سے گلہ شکوہ و شکایت بھی جاتی رہے گی،جس کی گونج ماضی میں سانحہ قصور واقعہ ننھی زینب قتل و سینکڑوں بچوں سے جنسی زیادتی کے انکشافات کے بعداب کے بارسانحہ چونیاں معصوم بچوں سے جنسی زیادتی و بعدازاں اُنکاقتل واقعہ رونما ہوجانے پر ہراطراف سنائی دیتی ہے۔#

A R Tariq

A R Tariq

تحریر : اے آر طارق
artariq2018@gmail.com
03074450515