روس نے اپنے خلاف پابندیوں کو ایرانی جوہری مذاکرات سے کیوں جوڑا؟

Nuclear Talks

Nuclear Talks

ماسکو (اصل میڈیا ڈیسک) ایران نے کہا ہے کہ وہ عالمی طاقتوں کے ساتھ اپنے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے ’تخلیقی امکانات‘ کی تلاش میں ہے۔ قبل ازیں روسی وزیر خارجہ نے یوکرینی جنگ کے باعث ماسکو کے خلاف عائد پابندیوں کو ویانا مذاکرات سے جوڑ دیا تھا۔

تہران سے پیر سات مارچ کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق ایران کی انتہائی طاقتور سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکرٹری علی شام خانی نے آج اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ یوکرین پر فوجی چڑھائی کے بعد بین الاقوامی برادری کی طرف سے روس کے خلاف عائد کردہ پابندیوں کو روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف کی طرف سے ویانا میں جاری مذاکرات سے جوڑ دیے جانے کے بعد تہران اب عالمی طاقتوں کے ساتھ اپنے جمود کے شکار جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے ‘تخلیقی امکانات‘ کی تلاش میں ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ اس امر سے قطع نظر کہ آیا روس کا اپنے خلاف پابندیوں کو ویانا مذاکرات سے جوڑ دینا درست طرز عمل ہے، علی شام خانی کا آج کا بیان ایران کی طرف سے روسی وزیر خارجہ کے مطالبے کا اولین اعلیٰ سطحی اعتراف ہے۔

علی شام خانی نے اپنی ٹویٹ میں لکھا، ”ویانا میں جاری جوہری مذاکرات میں شریک ممالک اپنے اپنے مفادات کی بنیاد پر اپنا عمل اور ردعمل ظاہر کرتے ہیں اور یہ بات قابل فہم بھی ہے۔‘‘

ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکرٹری علی شام خانی نے ٹوئٹر پر لکھا، ”ہم بھی جو بات کرتے ہیں اور جو موقف پیش کرتے ہیں، اس کا محرک ہمارے ملک کے عوام کے مفادات ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے ہم ایسے نئے عوامل کی تلاش میں ہیں، جو ویانا مذاکرات پر مثبت طور پر اثر انداز ہو سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ایسے تخلیقی راستوں کی تلاش میں ہیں، جن پر چل کر (جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے) تیز رفتار حل نکالا جا سکے۔‘‘

حالیہ دنوں کے دوران ویانا مذاکرات میں شریک مندوبین یہ کہتے رہے ہیں کہ مکالمت کے فریق دھڑے ایک ممکنہ سمجھوتے کے قریب تر پہنچ چکے ہیں۔

یہ رائے اس وقت مضبوط ہوئی تھی جب جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے کے سربراہ کی طرف سے ایران سے متعلق ایک ایسے نظام الاوقات پر اتفاق ظاہر کیا گیا تھا، جس پر عمل کرتے ہوئے تہران کو اپنے جوہری پروگرام سے متعلق اب تک کے تمام حل طلب سوالوں کے جوابات دینا چاہییں۔

ایرانی جوہری معاہدے سے متعلق ویانا مذاکرات میں ہفتہ پانچ مارچ کے روز اس وقت اچانک ایک نیا موڑ آ گیا تھا، جب روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے اس بارے میں یکدم ایک نیا مطالبہ کر دیا تھا۔

لاوروف نے کہا تھا، ”روس چاہتا ہے کہ امریکہ کم از کم بھی اپنے وزیر خارجہ کی سطح پر یہ ضمانت دے کہ یوکرین کی جنگ کی وجہ سے روس کے خلاف عائد پابندیاں ماسکو کے ایران کے ساتھ تعلقات پر اثر انداز نہیں ہوں گی۔‘‘

اس مطالبے نے 2015ء میں طے پانے والے ایرانی جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے کئی ماہ سے جاری ویانا مذاکرات کے ممکنہ طور پر جلد ہی نتیجہ خیز ہونے کو مشکوک بنا دیا تھا۔

روسی وزیر خارجہ کے مطالبے کے جواب میں ان کے امریکی ہم منصب انٹونی بلنکن نے کل اتوار کے روز کہا کہ ماسکو کے اس مطالبے کا یوکرین کی جنگ کی وجہ سے روس کے خلاف عائد پابندیوں سے کوئی تعلق ہی نہیں اور دونوں دو بالکل مختلف معاملات ہیں۔

انٹونی بلنکن نے امریکی نشریاتی ادارے سی بی ایس کے ساتھ بات چیت میں کہا، ”(سابق صدر ٹرمپ کے دور حکومت میں امریکہ کا) ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے یک طرفہ طور پر اخراج واشنگٹن کی طرف سے گزشتہ کئی برسوں کے دوران کی جانے والی سب سے بڑی غلطی تھا۔ جس ایرانی جوہری پروگرام کو طویل کوششوں کے بعد ایک ڈبے میں بند کیا گیا تھا، (ٹرمپ انتظامیہ نے) اسے دوبارہ ڈبے سے باہر نکال دیا تھا۔ اس لیے اب یہ ہمارے اور روس کے بھی مفاد میں ہے کہ اس معاہدے کی بحالی ممکن ہو سکے۔‘‘

بلنکن نے تاہم زور دے کر کہا کہ ویانا میں جاری مذاکرات اور یوکرین کی جنگ کے باعث روس کے خلاف عائد پابندیاں دو قطعی مختلف موضوعات ہیں۔