ترکی کے ساتھ تنازعہ، یونان ’طاقتور‘ ہتھیار خریدے گا

Turkey Greece Conflict

Turkey Greece Conflict

ترکی (اصل میڈیا ڈیسک) بحیرہ روم کے متنازعہ پانیوں میں قدرتی وسائل کے حصول کی خاطر ترکی اور یونان کے درمیان تناؤ ہے۔ امریکا نے اس معاملے کے حل کے لیے سفارتی حل پر زور دیا ہے۔

یونانی وزیر اعظم کریاکوس مٹسوٹاکِس نے کہا ہے کہ ملکی فوج کو جدید بنانے کی ضرورت ہے اور اس مقصد کی خاطر ایتھنز حکومت جدید اور طاقتور ہتھیار خریدے گی۔ ہفتے کے دن مٹسوٹاکِس نے یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا، جب بحیرہ روم کے متنازعہ پانیوں میں قدرتی وسائل کے حصول کی خاطر ترکی یونان کے درمیان تناؤ موجود ہے۔

یونانی وزیر اعظم نے شمالی شہر تھسالونکی میں ایک عوامی خطاب میں کہا، ”اب وقت آ گیا ہے کہ ملکی فوج کی صلاحیت کو بڑھایا جائے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک جامع پروگرام کے تحت ملکی دفاع کو مضبوط بنایا جائے گا۔

وزیر اعظم مٹسوٹاکِس نے کہا کہ ان کی حکومت اٹھارہ فرانسیسی رافائل جیٹ طیارے، چار جنگی بحری جہاز اور چار نیوی ہیلی کاپٹر خریدے گی۔ انہوں نے کہا کہ پندرہ ہزار نئے فوجی بھی بھرتی کیے جائیں گے جبکہ سائبر حملوں کی روکنے کی خاطر سرمایہ کاری کی جائے گی۔

وزیر اعظم مٹسوٹاکِس کے مطابق ملکی فوجی کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے ایںٹی ٹینک ہتھیار، بحری تارپیڈوز اور ایئر فورس کے لیے میزائلز بھی حاصل کیے جائیں گے۔

حالیہ عرصے میں مغربی عسکری اتحاد نیٹو کے رکن ممالک یونان اور ترکی میں عسکری تصادم کا خطرہ زیادہ ہو گیا ہے۔ تازہ کشیدگی اس وقت ہوئی، جب گزشتہ ماہ ترک فوج نے بحیرہ روم کے ایسے متنازعہ پانیوں میں تحقیقاتی ٹیمیں روانہ کیں، جن پر یونان اپنا حق جتاتا ہے۔ جواب میں یونان نے بھی اپنے جنگی بحری جہاز ان پانیوں میں روانہ کر دیے۔

اس تنازعے میں فرانس حکومت یونان کی حمایتی ہے۔ اسی لیے فرانسیسی وزیر دفاع فلورنس پارلی ایتھنز اور پیرس کے مابین ہونے والہ اسلحہ ڈیل کا خیر مقدم کیا ہے۔ رافائل طیارے بنانے والی داسو ایوی ایشن نے بھی یونانی آرڈر پر ‘خوشی‘ کا اظہار کیا ہے۔

فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے اپنے ترک ہم منصب رجب طیب ایردوآن کو خبردار کیا ہے کہ ترک افواج بحیرہ روم کے مشرقی پانیوں میں داخل ہو کر ‘سرخ لکیر‘ عبور نہ کریں۔ ہفتے کے دن ترک صدر نے جواب میں ماکروں کو کہا کہ ‘ترکی کے لیے مسائل‘ پیدا نہ کیے جائیں۔

وزیر اعظم مٹسوٹاکِس کا الزام ہے کہ یورپ کی مشرقی سرحدوں پر ‘خطرہ‘ بن کر ترکی علاقائی سلامتی کو متاثر کر رہا ہے۔ تاہم ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وہ انقرہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے کو تیار ہیں لیکن ترکی کو ‘اشتعال انگیز اعمال‘ ترک کرنا ہوں گے۔

یونانی وزیر اعظم کریاکوس مٹسوٹاکِس نے کہا، ”ہمیں مذاکرات کی ضرورت ہے لیکن گن پوائنٹ پر ایسا نہیں ہو سکتا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوتا تو اس تنازعے کے خاتمے کے لیے دی ہیگ میں قائم بین الاقوامی عدالت انصاف سے رجوع بھی کیا جا سکتا ہے۔

دوسری طرف امریکی وزیر خارجہ مائیکل پومپیو نے یونان اور ترکی پر زور دیا ہے کہ وہ کسی محاز آرائی کے بجائے سفارتی حل تلاش کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نیٹو کے اتحادی ممالک کے مابین اس طرح تنازعے سے صرف دشمن عناصر کو ہی فائدہ ہو گا۔

اس تنازعے کے حل کی خاطر مائیکل پومپیو کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی یونانی اور ترک رہنماؤں سے گفتگو کر چکے ہیں۔ ٹرمپ نے ایردوآن اور مٹسوٹاکِس کے ساتھ علیحدہ علیحدہ گفتگو میں زور دیا کہ اس تنازعے کو سفارتی ذرائع سے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔