برطانیہ میں پناہ کے متلاشی افراد کے لیے پالیسی میں سختی

Priti Patel

Priti Patel

برطانیہ (اصل میڈیا ڈیسک) برطانوی حکومت غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہونے والوں کی حوصلہ شکنی کے لیے اپنی پالیسی میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کرنے جا رہی ہے۔

حکومت کے مطابق برطانیہ میں پناہ گزینوں سے متعلق موجودہ نظام میں خامیاں ہیں، جن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جرائم پیشہ گروہ انسانوں کی اسمگلنگ میں ملوث رہے ہیں۔

وزیر داخلہ پریتی پٹیل کے مطابق ‘امیگریشن سے متعلق نیا پلان‘ منصفانہ ہوگا جس کے تحت واقعی پناہ کے متلاشی افراد کو برطانیہ میں سہارا دیا جائے گا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ نئی پالیسی ایسے افراد کے لیے سخت ہوگی، جو غیر قانونی طور پر انسانوں کے اسمگلروں کے ذریعے برطانیہ پہنچتے ہیں۔

نئے قوانین کے تحت برطانوی حکومت کے لیے ایسے افراد کو ملک بدر کرنا آسان ہو جائے گا۔ برطانوی میڈیا سے بات کرتے ہوئے پریتی پٹیل نے کہا کہ حکومت امیگریشن کے نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات متعارف کرانے والی ہے۔

ان کے مطابق مجوزہ سفارشات کی منظوری کے بعد ملک میں غیر قانونی طور پر اور چھپ کر داخل ہونے والوں کو وہ حقوق حاصل نہیں ہوں گے جو واقعی اپنی جانیں بچا کر قانونی طور پر برطانیہ پہنچنے والوں کو دیے جاتے ہیں۔

برطانیہ میں حکمران کنزرویٹو پارٹی ملک میں پناہ گزینوں اور تارکین وطن سے متعلق سخت موقف رکھتی ہے۔ امیگریشن قوانین میں تبدیلیوں کے ذریعے باہر سے آنے والوں کی تعداد پر قابو پانا وزیر اعظم بورس جانسن اور ان کے حامیوں کا انتخابی نعرہ رہا ہے۔

تاہم برطانیہ میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں کا کہنا ہے کہ مجوزہ تبدیلیاں امیگریشن نظام کو غیر منصفانہ بنائیں گی اور اس سے انسانوں کی اسمگلنگ کی حوصلہ شکنی بھی نہیں ہو گی۔

حزب اختلاف کی جماعت لیبر پارٹی نے بھی حکومتی تجاوز کو ‘غیر حقیقت پسندانہ‘ اور ‘غیر منصفانہ‘ قرار دے کر رد کیا ہے۔

ماہرین کے مطابق جنوبی ایشیا اور عرب دنیا کے ممالک سے کئی لوگ بہتر زندگی کی تلاش میں خفیہ طور پر یا فراڈ کے ذریعے برطانیہ پہنچتے ہیں۔ ایسے افراد معاشی تارکین وطن تصور کیے جاتے ہیں، جن کی اسمگلنگ میں ملوث جرائم پیشہ گروہ کروڑوں ڈالر کماتے ہیں۔

برطانیہ میں پچھلے سال مارچ تک ایک سال کے دوران پناہ کے لیے 35099 درخواستیں جمع کرائی گئیں، جن میں سے زیادہ تر ایران، البانیہ اور عراق کے شہریوں نے دی تھیں۔

ان پینتیس ہزار سے زائد درخواست دہندگان میں سے 8000 سے زائد افراد انسانی اسمگلروں کی مدد سے چھوٹی کشتیوں کے ذریعے سمندر کے راستے برطانیہ پہنچے تھے۔ مبصرین کے مطابق عالمی قوانین کے تحت برطانیہ پر لازم ہے کہ وہ جان بچا کر ترک وطن کر کے آنے والے افراد کو پناہ دینے سے انکار نا کرے۔

تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ برطانیہ میں پناہ کے متلاشی تارکین وطن کا دباؤ بڑھتا گیا ہے، جس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ وہاں پناہ کی درخواستیں دینے والوں کو قانونی چارہ جوئی میں سالہا سال لگ جاتے ہیں۔

تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ درخواستوں کی اصلیت کا تعین اس بنا پر نہیں کیا جا سکتا کہ پناہ کا متلاشی کوئی شخص ہوائی جہاز کے ذریعے برطانیہ پہنچا یا پھر کسی کشتی کے ذریعے۔