امیکرون سے خطرہ: کیا بین الاقوامی سفر کرنا پھر سے ناممکن ہو رہا ہے؟

Travel Restrictions

Travel Restrictions

جنوبی افریقہ (اصل میڈیا ڈیسک) جنوبی افریقی ممالک میں کورونا وائرس کی نئی اور انتہائی متعدی قسم امیکرون کی تشخیص کے بعد پاکستان، سعودی عرب، امریکا اور یورپی یونین سمیت دنیا کے کئی ممالک نے افریقی ممالک پر سفری پابندیاں عائد کر دی ہیں۔

جنوبی افریقہ کے ماہرین نے کورونا وائرس کی ایک نئے اور خطرناک قسم کی تشخیص کی، جسے عالمی ادارہ صحت نے امیکرون کا نام دیا۔ وائرس کی یہ قسم اب تک سامنے آنے والی اقسام کی نسبت انتہائی خطرناک اور متعدی تصور کی جا رہی ہے۔

نئی قسم سے لاحق ممکنہ خطرات کے پیش نظر دنیا بھر کے مختلف ممالک نے فوری طور پر جنوبی افریقہ سمیت دیگر افریقی ممالک پر سفری پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اس صورت حال کے باعث ایک مرتبہ پھر بین الاقوامی سفر مزید مشکل ہو جانے کے خطرات بھی پیدا ہو گئے ہیں۔

اب تک مختلف ممالک نے کورونا وائرس کی اس نئی قسم کو روکنے کے لیے جو اقداماتکیے ہیں، ان کا اجمالی جائزہ درج ذیل ہے۔

اب تک سب سے سخت فیصلہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے سامنے آیا ہے۔ اسرائیل نے آج اتوار کے روز آئندہ چودہ دنوں کے لیے کسی بھی غیر ملکی کی اپنے ہاں آمد پر مکمل پابندی عائد کرنے کا فیصلہ۔

اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینٹ کے مطابق حکومت کی منظوری کے بعد یہ فیصلہ نافذالعمل ہو جائے گا۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ اسرائیل میں امیکرون کا ایک مصدقہ کیس سامنے آ چکا ہے جب کہ مزید سات مریضوں کے بارے میں بھی یہ شبہ ہے کہ وہ اس نئی قسم سے متاثر ہوئے ہیں۔

امیکرون ویریئنٹ کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دیگر اقسام سے پانچ گنا زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے۔ جرمنی سمیت دیگر مغربی یورپی ممالک میں کورونا وائرس کی چوتھی لہر شدت سے جاری ہے۔

اسی لیے یورپی ممالک نے بھی اپنے ہاں امیکرون کا پھیلاؤ روکنے کے لیے سفری پابندیاں عائد کرنے کے فیصلے کیے ہیں۔

دوسری جانب جرمنی، برطانیہ، اٹلی، بیلجیئم، چیک رپبلک اور نیدرلینڈز میں امیکرون کے کئی کیسز کی تصدیق بھی ہو چکی ہے۔

جرمنی میں اب تک امیکرون کے دو کیسز کی تصدیق کی گئی ہے۔ جرمن صوبے باویریا کے وزیر صحت کلاؤس ہولیٹشک کے مطابق اس وائرس سے متاثرہ دونوں افراد 24 نومبر کو میونخ کے ہوائی اڈے پر اترے تھے۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ جنوبی افریقی ماہرین نے امیکرون ویریئنٹ کی تشخیص اس سے اگلے روز کی تھی۔

اسی وجہ سے جرمنی اور فرانس کے متعددی امراض سے متعلقہ اداروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ امیکرون قسم پہلے ہی یورپ پہنچ چکی ہے۔

پاکستان نے بھی امیکرون قسم کے پھیلاؤ سے بچنے کے لیے سات ممالک پر سفری پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ پاکستان میں کورونا وبا کی صورت حال پر نظر رکھنے والے ادارے ‘نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر‘ کے مطابق ان ممالک میں چھ افریقی ممالک جنوبی افریقہ، نمیبیا، موزمبیق، لیسوتھو، ایسواتینی، بوٹسوانا کے علاوہ ہانگ کانگ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

سفری پابندیاں اتوار 28 نومبر سے نافذ العمل ہو چکی ہیں۔ پاکستانی حکام کے مطابق ان ممالک میں موجود پاکستانی شہری پانچ دسمبر تک پاکستان واپس لوٹ سکیں گے۔

دنیا بھر کے کئی ممالک کی جانب سے سفری پابندیاں عائد کیے جانے کے فیصلوں پر جنوبی افریقہ کی حکومت نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

اس تصویر میں احمد آباد کے ایک ہسپتال کے باہر وفات پانے والے مریض کے رشتہ دار رو رہے ہیں۔ بھارت میں ہفتے کو ریکارڈ دو لاکھ چونتیس ہزار سے زائد کورونا کیسز درج کیے گئے تھے۔ کورونا مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی دو وجوہات ہیں، ایک کورونا وائرس کی نئی قسم ہے، جو تیزی سے پھیلتی ہے، دوسرا لوگ سماجی فاصلے کا خیال نہیں رکھتے۔

جنوبی افریقی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ان کے ملک پر سفری پابندیاں عائد کرنا کورونا کی اس نئی قسم کی تشخیص پر جنوبی افریقہ کی تعریف کرنے کی بجائے اسے سزا دینے کے مترادف ہے۔

ٹوئٹر پر جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اپنے شہریوں کو بیماری سے بچانا ہر ملک کا حق ہے تاہم جنوبی افریقہ پر یکطرفہ سفری پابندیاں عائد کیے جانے سے اس ملک کی معیشت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔

جنوبی افریقی حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ کووڈ وبا سے متعلقہ عالمی طور پر تسلیم شدہ پروٹوکول پر عمل کر رہے ہیں اور اس مرض میں مبتلا کسی بھی شخص کو کسی دوسرے ملک جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔

امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن نے تاہم اومیکرون قسم کی نشاندہی کرنے اور ان معلومات کو دنیا کے سامنے لانے پر جنوبی افریقی سائسدانوں اور حکومت کی تعریف کی ہے۔

ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ آیا کورونا وائرس کے خلاف استعمال ہونے والی ویکسین امیکرون ویریئنٹ کے خلاف بھی موثر ثابت ہو گی۔

تاہم آسٹرا زینیکا ویکسین بنانے والے آکسفورڈ گروپ کے سربراہ نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ امیکرون کورونا وائرس کے سبب پھیلنے والی وبا کے نئے آغاز کا باعث نہیں بنے گی۔

پروفیسر سر اینڈریو پولارڈ نے برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کورونا کی ایلفا، بیٹا اور ڈیلٹا اقسام کے پھیلاؤ کے دوران بھی ویکسین موثر ثابت ہوتی رہی ہے اور نئی قسم سامنے آنے کے باوجود بھی گزشتہ برس جیسی شدید صورت حال پیدا نہیں ہو گی۔

تاہم دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ امیکرون قسم متعددی ہونے کے باوجود کس قدر خطرناک ثابت ہو سکتی ہے، اس بارے میں فوری طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہے اور حقیقی صورت حال آئندہ دو ہفتوں میں ہی سامنے آئے گی۔