سلگتے ہاتھ

اس سے پہلے کہ میرے معصوم بچوں کو
حسیں خواب نہ دو
نئے عذاب نہ دو
امنگ آفتاب نہ دو

کی جب تک ان اندھیری فضائوں میں
ظالم آسیبوںکے ڈیرے ہیں
مظلوم دلوں کی سسکیاں ہیں
زردار کے یخ تھپیڑے ہیں

کہ جب تک رسوخ کا سکہ بھاری ہے
حق کے شاہی خانوں پر!
موت کا پنچھی منڈلاتا ہے
غربت کے مدفوق مکانوں پر

کہ جب تک سود کی چکی چلتی ہے
انسان کی خوشیاں گروی ہیں
کچھ کے جام چھلکتے ہیں !
کچھ کی زندگیاں گروی ہیں

کہ جب تک علم کے ایوانوں پر
تقسیم کا نشہ طاری ہے !!
ایک کے حق میں آدھی ہے
ایک کے حق میں ساری ہے

کہ جب تک انصاف خریدا جاتا ہے
چند سکوں کی جھنکاروں میں
آنچل پھٹتے رہتے ہیں!
عصمت کے بازاروں میں

کہ جب تک بادل چھائے ہیں
بے بسی کے آہنی ہاتھوں میں
غربت کی زنجیروں کے!
لہو پسینے کی ماتوں کے

کہ جب تک کفر کے فتوے جاری ہیں
ناشاد کلیسا کی بے باقی پر
ہر شخص نے پتھر اٹھائے ہیں
حق پہ چلتے ساقی پر!!!

کہ جب تک تعبیریں وحشی ہیں
پاکیزہ سندر خوابوں کی
جب تک روشنی گروی ہے
امیدوں کے مہتابوں کی

تب تک نہ افسانہ کہہ بابا
آدمی کی انسانی کا!

امنگ سے تڑپتی دھڑکنوں کا
گاتی شوخ جوانی کا
پہلے سلگتے ہاتھوں میں
کوئی مرہم جیسا جواب دینا

پھر میرے معصوم بچوں کو
حسین خواب دینا!
امنگ آفتاب دینا!
ہاتھوں میں کتاب دینا!

Akhtar Sardar Choudary

Akhtar Sardar Choudary

تحریر : اختر سردار چودھری