کاغذ کی کشتی

کاغذ کی کشتیوں میں پانی کا سفر ہے یہ
مِٹی کے باسیوں کا ویران نگر ہے یہ

جن لوگوں پہ تکیہ تھا ان سب کے رویّوں میں
طوفان کے آنے سے پہلے کا اثر ہے یہ

جس کے درو دیوار میں چیخیں ہوں مُقیّد
کیسے نہ کہوں اُس کو وحشت بھرا گھر ہے یہ

لکھا ہے جس نے کھیل کے پتّوں پہ ضرورت
شاطِر کھلاڑیوں کا بھرپور ہنر ہے یہ

سر اپنا ہاتھ اپنے دستار بھی مرضی کی
دستار نہیں سانپ کی اِک راہ گزر ہے یہ

ممّتاز میرے سامنے کیچڑ بھرا رستہ ہے
دامن کی سفیدی پر چھینٹے کا خطر ہے یہ

Paper Boat

Paper Boat

کلام / ممتازملک