یورپ میں پھیلتے کورونا وائرس پر ڈبلیو ایچ او کی تشویش

Coronavirus

Coronavirus

یورپ (اصل میڈیا ڈیسک) عالمی ادارہ صحت نے یورپی ممالک میں ایک مرتبہ پھر کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یورپ میں اس وبا سے ہونے والی ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

یورپی براعظم میں گزشتہ ہفتوں کے دوران کورونا وائرس کی وبا سے ہونے والی ہلاکتوں میں گیارہ فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس اضافے پر عالمی ادارہ صحت نے اپنی گہری تشویش ظاہر کی ہے۔

ڈبلیو ایچ اوکے مطابق اس تناسب سے ہلاکتیں بڑھتی رہیں تو اگلے مہینوں میں یہ تعداد کئی ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔ اس تناظر میں عالمی ادارے نے یورپی ممالک اور اس کے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر اپنائیں اور اس خطرے سے منہ موڑنے کی پالیسی نامناسب ہے۔

یہ تشویش اور تلقین ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے یورپ کے لیے مقرر ڈائریکٹر نے ایک پریس کانفرنس میں بیان کی ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے یورپی دفتر کے سربراہ ہانس کلوگے نے ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں ایک پریس کانفرنس میں واضح کیا کہ اگر یورپی اقوام نے کورونا وبا کے حوالے سے کسی قسم کی تساہلی برتی تو رواں برس یکم دسمبر تک اس براعظم میں ہونے والی ممکنہ ہلاکتیں دو لاکھ چھتیس ہزار کے لگ بھگ ہو جائیں گی۔ اب تک اس وبا کے ہاتھوں یورپ میں تیرہ لاکھ انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے یورپ کے لیے نگران اہلکار ہانس کلوگے کا کہنا ہے کہ یورپی ممالک میں دوبارہ سے کورونا وائرس کی افزائش کی سب سے بڑی وجہ ایک انسان سے دوسرے میں منتقلی ہے اور یہ اس کو ظاہر کرتی ہے کہ لوگ احتیاط نہیں برت رہے ہیں۔

ان کے مطابق دوسری وجہ یورپی ملکوں میں ویکسینینشن کے پروگرام میں پیدا قدرے سست روی ہے۔ ہانس کلوگے کے نزدیک تیسری وجہ مختلف ملکوں میں عائد پابندیوں میں نرمی ہے۔

کلوگے کے مطابق یورپ کی ترپن اقوام میں سے تینتیس ایسی ہیں جہاں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران انفیکشن کی شرح دس فیصد سے زائد رہی ہے۔ انہوں نے ان ملکوں میں تیزی سے پھیلتے انفیکشن پر افسوس کا اظہار کیا۔ ان کا خیال ہے کہ ایسے ممالک میں ترجیح کی طالب آبادی میں سے کئی افراد کو بدستور ویکسین نہیں لگی ہے اور ان کے بڑی عمر میں ہونے کی وجہ سے انفیکشن میں اضافہ ممکن ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ براعظم یورپ کی قریب نصف آبادی کو مکمل ویکسین لگائی جا چکی ہے لیکن اب اس سلسلے میں کسی حد تک سست روی سامنے آئی ہے۔ ہانس کلوگے کا کہنا ہے کہ یورپ کی غریب ریاستوں میں ویکسینیشن کا عمل سست ہے اور ان میں کچھ ملکوں کے ہیلتھ کیئر کے صرف دس فیصد ملازمین کو ویکسین لگائی گئی ہے۔

بوسٹر ‘لگژری‘ نہیں ہے
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے یورپی دفتر نے اپنے مرکز کے اس بیان سے اختلاف کیا ہے کہ بوسٹر لگانا قبل از وقت ہے اور اسے ‘لگژری‘ کا نام بھی دیا گیا تھا۔ بوسٹر کی مخالفت عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل بھی کر چکے ہیں۔

ادارے کے یورپی دفتر کے سربراہ ہانس کلوگے نے اس بیانیے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ بوسٹر کی ضرورت ہے اور یہ کسی بھی طور پر ‘لگژری’ کے زمرے میں نہیں لایا جا سکتا۔ کلوگے کے مطابق احتیاط کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے بوسٹر ایک احتیاحی عمل ہے اور کمزور افراد کو مزید محفوظ بنانا ہے۔

اس وقت اسرائیل میں باضابطہ طور پر بوسٹر بڑی عمر کے شہریوں کو لگایا جا رہا ہے۔ اسرائیل کی قریب قریب ساری آبادی ویکسین لگوا چکی ہے۔ سنگاپور کی اسی فیصد آبادی کو بھی ویکسین لگائی جا چکی ہے۔ کوویکس پروگرام کے تحت غریب اقوام کو ویکسین کی فراہمی کا سلسلہ جاری ہے۔