مسئلہ جین کا ہے

The problem is of gene

The problem is of gene

برطانوی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایک ایسا جین دریافت کیا ہے جو انسانوں میں جنسی بلوغت تک پہنچنے میں تاخیر کا باعث بنتا ہے۔

یہ جین ایسے نیوران کو کنٹرول کرتا ہے جو جسم کو ہدایت کرتا ہے کہ کب جنسی بلوغت تک پہنچنا ہے۔

لندن کے کوئین میری یونیورسٹی کے محقیقین نے سات خاندانوں پر تحقیق کے دوران جنسی بلوغت میں تاخیر کی وجہ دریافت کی ہے۔

انڈوکرینالوجی کے سالانہ اجلاس میں پیش کی گئی رپورٹ میں کہا گیا کہ اس نئی تحقیق سے بلوغت میں تاخیر کے مسئلے کے علاج میں مدد ملے گی۔

لڑکیاں عموماً 13 سال تک اور لڑکے 14 سے 15 سال کی عمر تک جنسی بلوغت تک پہنچتے ہیں۔

اگر کسی نوجوان لڑکی میں پستان اور لڑکے میں خصیوں کی نشونما کے اثرات نظر نہ آئے تو اس ان کے ڈاکٹر کو پریشان ہونا چاہیے۔

ایک سو بالغ افراد میں سے چار افراد یا تو جنسی بلوغت کو جلدی پہنچے یا انھیں بلوغت میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑا۔

محقق ڈاکٹر ساشا ہوارڈ کے مطابق جین آر ایچ میں نقصان اس قسم کے ا کثر کیسوں کا ذمہ دار ہے۔

انھوں نے فن لینڈ سے تعلق رکھنے والے سات خاندانوں پر تحقیق کی لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق کے نتائج برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔

ڈی این اے پر تحقیق کے دوران پندرہ افراد کے جین میں خرابی نوٹ کی گئی لیکن ان میں ایک نقص منفرد تھا۔

جین میں اس منفرد نقص کو ابھی تک نام نہیں دیا گیا لیکن یہ رحم کے اندر بچے کے دماغ کو ہارمون جاری کرنے والے نیوران پر اثر انداز ہوتا ہے۔

اس سے جنسی بلوغت پر مختلف سطحوں پر اثر پڑتا ہے جس کا انحصار جین کو ہونے والے نقصان پر ہوتا ہے۔

جین میں معمولی نقصان جنسی بلوغت تک پہنچنے میں چند سال کی تاخیر کا باعث بن سکتا ہے جبکہ جین میں بڑا نقصان جنسی بلوغت تک رسائی کو ہمیشہ کے لیے روک سکتا ہے۔

ڈاکٹر ہوارڈ کا کہنا ہے کہ’یہ جاننا فائدہ مند ہے کیونکہ اس سے بروقت علاج میں مدد ملے گی۔‘

انھوں نے کہا کہ دیگر جینیات پر بھی تحقیق جاری ہے جو بلوغت تک رسائی پر اثرانداز ہوتی ہے۔

یونیورسٹی آف ایڈنبرا میں اینڈوکرینالوجی کے ماہر پروفیسر رچرڈ شارپ نے کہا کہ ’جنسی بلوغت تک تاخیر سے پہنچنا شرمندگی اور ذہنی تناؤ کا باعث بن سکتا ہے اور اس کی وجہ صحت کے دیگر مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ’اس قسم کے علم سے ڈاکٹروں کو مریضوں کو جنسی بلوغت تک پہنچانے میں مدد ملے گی۔‘