امریکی فوجیوں کو گھر واپس لانے کا وقت آ گیا، نئے امریکی وزیر دفاع

Christopher Miller

Christopher Miller

واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا کے قائم مقام نئے وزیر دفاع نے کہا ہے کہ تمام جنگوں کا ختم ہونا ضروری ہے اور بہت جلد افغانستان اور عراق سے امریکی فوجی واپس بلائے جا سکتے ہیں۔

امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے نئے سربراہ کرسٹوفر ملر نے ہفتے کے دن اشارہ دیا ہے کہ افغانستان اور عراق سے امریکی فوجیوں کی واپسی میں تیزی لائی جا سکتی ہے۔ مسلح افواج سے اپنے خطاب میں ان کا کہنا تھا، ”ہم نے چیلنجز کا مقابلہ کیا، ہم نے اپنی پوری کوشش کی۔ اب ان کے گھر واپس آنے کا وقت آ چکا ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ”ہم دائمی جنگ کے لوگ نہیں ہیں۔ دائمی جنگ اُس نظریے کے برعکس ہے، جس کے لیے ہم کھڑے ہیں اور جس کے لیے ہمارے آباؤ اجداد نے نے جدوجہد کی۔ تمام جنگوں کا خاتمہ ہونا چاہیے۔‘‘

امریکی محکمہ دفاع کی یہ پالیسی صدر ٹرمپ کی ترجیحات سے عین مطابقت رکھتی ہے۔ وہ بھی امریکی فوجیوں کو کرسمس سے پہلے واپس لانا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کے چار سالہ دور اقتدار میں مِلر چوتھے وزیر دفاع ہیں۔ انہیں صدر ٹرمپ کی انتخابات میں شکست کے دو دن بعد نو نومبر کو پینٹاگون کا نیا سربراہ تعینات کیا گیا۔

کرسٹوفر ملر امریکی اسپیشل فورسز کے سابق آفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ انسداد دہشت گردی کے ماہر بھی ہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ کی گزشتہ کئی ماہ سے کوشش ہے کہ افغانستان سے فوجیوں کو جلد از جلد واپس بلایا جائے

قائم مقام امریکی وزیر دفاع کا کسی مخصوص جنگ کا ذکر کیے بغیر کہنا تھا، ”بہت سے لوگ جنگ سے تنگ ہیں، میں بھی انہی میں سے ایک ہوں۔ لیکن یہ ایک نازک مرحلہ ہے، جس میں ہم اپنی کوششوں کو ایک قائدانہ کردار سے معاون کردار میں منتقل کر رہے ہیں۔‘‘

تاہم انہوں نے القاعدہ کے خلاف جنگ کا ذکر بھی کیا، جس کو بنیاد بناتے ہوئے امریکا نے افغانستان اور عراق پر حملے کیے تھے، ”یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ہم القاعدہ کو شکست دینے کے راستے پر ہیں۔‘‘ تاہم انہوں نے کہا، ”امریکا کو ماضی کی اسٹریٹیجک غلطیوں سے گریز کرنا چاہیے۔‘‘

ٹرمپ انتظامیہ کی گزشتہ کئی ماہ سے کوشش ہے کہ افغانستان سے فوجیوں کو جلد از جلد واپس بلایا جائے۔ اس حوالے سے افغان طالبان کے ساتھ اس سال فروری میں امن معاہدہ بھی ہو چکا ہے۔ لیکن امیکا کا یہ بھی کہنا ہے کہ طالبان جب تک اپنے وعدے پورے نہیں کریں گے، افغانستان میں تقریبا پینتالیس سو امریکی فوجی موجود رہیں گے۔ ان فوجیوں کا مقصد افغان سکیورٹی فورسز کو مدد فراہم کرنا ہے۔ ان دنوں افغان طالبان اور کابل حکومت کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔

افغان طالبان اور کابل حکومت کے درمیان امن کی راہ ہموار کرنے کے لیے پاکستان مرکزی ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے اور اسی حوالے سے پاکستانی وزیراعظم عمران خان آئندہ ہفتے کابل کا دورہ کریں گے۔