گیسوئے تاب دار کو اور بھی تاب دار کر
غلامی کیا ہے؟ ذوقِ حسن و زیبائی سے محرومی
اعجاز ہے کسی کا یا گردشِ زمانہ
عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر و بم
کھو نہ جا اس سحرو شام میں اے صاحبِ ہوش
جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی
کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد
خود کی شوخی و تندی میں کبر و ناز نہیں
خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں
تیرے عِشق کی انتہا چاہتا ہوں – میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی
مکتبوں میں کہیں رعنائی افکار بھی ہے؟
مٹا دیا مرے ساقی نے عالمِ من و تو
متاعِ بے بہا ہے درد و سوزِ آرزو مندی
نہ تخت و تاج میں نہ لشکر و سپاہ میں ہے
پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے
جنہیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں
تصویرِ درد
پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
پوچھ اس سے کہ مقبول ہے فطرت کی گواہی
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
تازہ پھر دانشِ حاضر نے کیا سحرِ قدیم